22 جنوری ، 2018
اسلام آباد: ڈاکٹر عامر لیاقت، ان کی اہلیہ اور 1100؍ دیگر پاکستانیوں کو ایگزیکٹ کی یونیورسٹیوں سے ڈگریاں خریدنے کیلئے رقم ادا کرنا پڑی۔
کروڑوں ڈالرز مالیت کا یہ اسکینڈل ایک مرتبہ پھر شہ سرخیوں کے ساتھ سامنے آرہا ہے اور بی بی سی کی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ 3000؍ سے زائد برطانوی شہریوں نے بھی جعلی ڈگریاں خریدیں۔
برطانوی میڈیا میں اس اسکینڈل کا ذکر سامنے آنے کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے جمعہ کو اس صورتحال کا از خود نوٹس لیا اور ایف آئی اے کو ہدایت کی کہ وہ 10؍ دن میں تفتیش کے متعلق رپورٹ پیش کرے۔
ایف آئی اے کو اب تک عدالت سے کوئی آرڈر موصول نہیں ہوا۔ صورتحال کی پیشرفت سے آگاہ ایک ذریعے نے بتایا ہے کہ ایف آئی اے کا ایک عہدیدار ہفتے کو عدالت پہنچا تاکہ آرڈر کی کاپی وصول کی جا سکے جو وہاں دستیاب نہیں تھی۔
اگرچہ ایگزیکٹ اسکینڈل عالمی سطح پر شہ سرخیوں کے ساتھ شائع ہوا اور دنیا کے مختلف حصوں سے اس فراڈ کی باتیں سامنے آئیں لیکن پاکستان میں اس ضمن میں تحقیقات پر نہ صرف سمجھوتا کیا گیا بلکہ اسکینڈل سے جڑی کئی یونیورسٹیاں اب بھی آن لائن ہیں۔
انٹرنیشنل میڈیا کا کہنا ہے کہ ایگزیکٹ اسکینڈل کے متاثرین امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا، برطانیہ، مشرق وسطیٰ اور دیگر ملکوں میں موجود ہیں لیکن پاکستان میں موجود ایگزیکٹ کے صارفین پر کسی نے توجہ نہیں دی۔ ان میں سے سب سے نمایاں شخص متنازع اینکر ڈاکٹر عامر لیاقت حسین ہیں۔ ایف آئی اے کی جانب سے حاصل کیے جانے والے ریکارڈ کے مطابق عامر لیاقت ایشووڈ یونیورسٹی کے طالب علم تھے۔
اتفاق کی بات ہے کہ عامر لیاقت ایگزیکٹ کی ملکیت سمجھنے جانے والے چینل ’’بول‘‘ کے اینکر بھی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے تاریخ کے شعبے میں بیچلر اور ماسٹرز کی ڈگری کیلئے اسٹوڈنٹ آئی ڈی نمبر AU-2006-12-92888 پر اپلائی کیا۔ ریکارڈ میں فی جمع کرانے کی تاریخ 18؍ جون 2006ء درج ہے۔ خط و کتابت کیلئے دیا جانے والا پتہ، موبائل فون نمبر، ای میل ایڈریس بھی درج ہے۔
جس وقت عامر نے تاریخ کے شعبے میں ڈگریوں کی درخواست دی اسی وقت ان کی بیوی نے بھی میڈیسن اور سرجری میں بیچلرز اور بزنس ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز میں دلچسپی ظاہر کی۔ بیچلر ڈگری کیلئے ادائیگی کی تاریخ 17؍ مارچ 2006ء جب کہ ماسٹرز کیلئے 28؍ مارچ 2006ء درج ہے۔ خاتون کی بیچلرز کی ڈگری کیلئے آئی ڈی BU-2006-3-394666 جبکہ ماسٹرز کیلئے BU-2006-3-394667 درج ہے۔
تفتیش کے آغاز پر عامر لیاقت کو ایف آئی اے نے طلب کیا تھا۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ انہوں نے ڈگریوں کیلئے اپلائی تو کیا تھا لیکن انہیں یہ موصول نہیں ہوئیں۔
تاہم، جب ٹی وی پر نیوز کاسٹر نے ان سے رابطہ کرکے موقف معلوم کیا تو انہوں نے دوٹوک الفاظ میں انکار کیا کہ انہوں نے ڈگریوں کیلئے اپلائی کیا تھا۔ 2005ء میں عامر لیاقت کراچی سے شائع ہونے والے روزنامہ امت کی شہ سرخیوں کا حصہ بنے تھے جب یہ بات سامنے آئی تھی کہ ان کے بی اے، ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں جعلی ہیں، یہ ڈگریاں انہوں نے 2002ء میں قومی اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑنے کیلئے جمع کرائی تھیں۔
یہ ڈگریاں ا نٹرنیٹ سے خریدی گئی تھیں اور انہیں ٹرنٹی کالج نے جاری کیا تھا جس کا پتہ اسپین کا درج تھا۔ عامر لیاقت نے اُس وقت وضاحت پیش کی تھی کہ اسپین کی یونیورسٹی نے انہیں اعزازی ڈگری جاری کی تھی اور کوئی فیس نہیں لی تھی لیکن جب ساؤتھ ایشیا ٹریبون نے یونیورسٹی سے پوچھا تو جواب ملا کہ انہوں نے کسی کو بھی بنا فیس کے کوئی اعزازی ڈگری جاری نہیں کی۔
ایسے 1100؍ پاکستانی ہیں جنہوں نے ایگزیکٹ کی یونیورسٹیوں سے ڈگریاں خریدیں، ان میں سے 800؍ افراد ملک سے باہر ہیں۔ باقی افراد نے عامر لیاقت اور دیگر کی طرح خط و کتابت کیلئے پاکستان کا پتہ دے رکھا ہے۔ ایسے ہی ایک شخص حسن سلیم حقانی عسکری 7، اڈیالہ روڈ راولپنڈی کے ہیں جنہوں نے ایگزیکٹ کی روش ول یونیورسٹی سے سول انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ ان کا اسٹوڈنٹ آئی ڈی نمبر AD-2006-12-134596 ہے جبکہ فیس کی ادائیگی کی تاریخ 21؍ دسمبر 2005ء درج ہے۔
ایک اور شخص عامر ہاشمی نے ایگزیکٹ کی بیل فورڈ یونیورسٹی سے ایجوکیشنل ایڈمنسٹریشن میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے، انہوں نے خط و کتابت کیلئے ہلال روڈ، حساس ادارے کا ڈائریکٹوریٹ، راولپنڈی کا پتہ درج کرا رکھا ہے، فیس کی ادائیگی کی تاریخ 5؍ فروری 2008ء درج ہے۔
ایک اور شخص سردار علی خان فیز فور حیات آباد پشاور کے ہیں، انہوں نے بیل فورڈ یونیورسٹی سے کرمنل جسٹس میں ہائی اسکول ڈپلومہ، ٹیلی کمیونیکیشن میں ایسوسی ایٹ ڈگری جبکہ الیکٹریکل انجینئرنگ میں بیچلرز ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ فیس کی ادائیگی 14؍ جون 2006ء کو کی گئی تھی۔
پاکستان سائیکولوجیکل ایسوسی ایشن کے بلال اسلم صوفی 2005ء میں ایشووڈ یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی اسٹوڈنٹ تھے۔ کراچی کے عاصم مبین نے ایشووڈ سے الیکٹریکل انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
راولپنڈی کے پروفیسر رضا انجم نے روش ول یونیورسٹی سے ٹیلی کمیونیکیشن میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ پشاور کینٹ کے انجم افروز نے 2006ء میں ایشووڈ یونیورسٹی سے کرمنل جسٹس میں ایسوسی ایٹ ڈگری حاصل کی۔
لاہور کے ڈاکٹر سید سرفراز حسین نے روش ول یونیورسٹی سے 2005ء میں کلینکل سائیکولوجی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ کلفٹن روڈ کراچی کے عبدالصمد مسافر نے بیل فورڈ یونیورسٹی سے آلٹرنیٹیو میڈیسن میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ شیر ربانی کالونی قصور کے مقصود حسنی نے ایشووڈ یونیورسٹی سے 2005ء میں انگلش میں پی ایچ ڈی کی ڈگری خریدی۔
یہ رپورٹ 22 جنوری کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوئی