پاکستان
Time 09 فروری ، 2018

فیض آباد دھرنا کیس: راجہ ظفر الحق کمیٹی رپورٹ پیش نہ کرنے پر عدالت برہم

اسلام آباد: فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت کے دوران راجہ ظفرالحق کمیٹی کی رپورٹ پیش نہ کرنے پر عدالت نے شدید برہمی کا اظہار کیا ہے۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت کی، اس موقع پر چیف کمشنر ، آئی جی اسلام آباد اور  ڈی جی آئی بی عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔

عدالت نے سیکرٹری دفاع، داخلہ اور سیکرٹری قانون کو بھی رپورٹ سمیت طلب کر رکھا تھا جب کہ ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو وائرل آڈیو ریکارڈنگ سے متعلق رپورٹ پیش نہ کرسکے جس پر عدالت نے ان کی سرزنش کی اور 12 فروری تک رپورٹ طلب کرلی۔

سماعت کے دوران راجہ ظفر الحق کمیٹی کی رپورٹ پیش نہ کرنے پر بھی عدالت نے شدید برہمی کا اظہار کیا اور سیکرٹری دفاع کو دوبارہ رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ سیکرٹری دفاع رپورٹ میں بتائیں کہ مظاہرین سے معاہدے میں آرمی چیف کا نام کیوں استعمال ہوا۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیے کہ عدالت میں رپورٹس جمع نہ کرانے کی صورت میں توہین عدالت کی کارروائی ہو گی۔

خیال رہے کہ ختم نبوت کے حلف نامے میں ترمیم کے معاملے پر مذہبی جماعت کی جانب سے نومبر 2017 میں 22 روز تک دھرنا دیا گیا جو بعدازاں وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے اور ایک معاہدے کے بعد ختم ہوا۔

دھرنے کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست زیرسماعت ہے جب کہ عدالت نے آبزرویشن دی تھی کہ دھرنے کے خاتمے کے لئے کئے گئے معاہدے کی ایک شق بھی قانون کے مطابق نہیں اور جو معاہدہ ہوا اس کی قانونی حیثیت دیکھنی ہے۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیے تھے کہ 'زخمی میں ہوا ہوں ریاست کو کیا حق ہے میری جگہ راضی نامہ کرے ، جس پولیس کو مارا گیا کیا وہ ریاست کا حصہ نہیں، اسلام آباد پولیس کو 4 ماہ کی اضافی تنخواہ دینی چاہیے، پولیس کا ازالہ نہیں کیا جاتا تو مقدمہ نہیں ختم ہونے دوں گا'۔

مزید خبریں :