20 فروری ، 2018
اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے پارلیمنٹ سپریم ہے، مگر آئین پارلیمنٹ سے بھی بالا ہے۔
میڈیا کمیشن سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کہا جارہا ہے ہم مداخلت کررہے ہیں مگر آئین میں عدلیہ کی حدود کا تعین بھی کیا گیا ہے، عدالتی نظر ثانی کا اختیارات رکھتے ہیں،نیک نیتی سے طاقت کا بھرپوراستعمال کریں گے۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ تمام لیڈرز قابل احترام ہیں، پارٹی صدارت سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران سمجھنے کے لیے چند سوالات اٹھائے تھے کہ کیا کوئی ایسا شخص پارٹی سربراہ بن سکتا ہے؟ عدالتی بات چیت کو غلط رنگ دیا جارہا ہے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے پارلیمنٹ میں ہونے والے بحث کے تناظر میں کہا کہ ججز کی مداخلت سے متعلق بات کی جاری ہے۔
جسٹس ثاقب نثار نے کمرہ عدالت نمبر ون میں تین رکنی بینچ کی سربراہی کرتے ہوئے کہا کہ معتبر صحافیوں کی موجودگی میں آج بھی یہ کہتا ہوں کہ پارلیمنٹ سپریم ہے، مگر آئین پارلیمنٹ سے بھی بالا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئین میں عدلیہ کی حدود کا تعین کردیا گیا ہے، مقننہ کے بنائے ہوئے قانون اور خاص طور پر بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہونے والی قانون سازی سے متعلق عدالتی نظرثانی کا اختیار رکھتے ہیں۔
’گھبرائیں گے نہیں طاقت کا نیک نیتی سے استعمال کرتے رہیں گے‘
چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ وہ کمزور نہیں ہیں، نہ وہ وضاحت کر رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ "گھبرائیں گے نہیں، طاقت کا بھرپور استعمال کریں گے جو اللہ نے انھیں دی ہوئی ہے۔ طاقت کا استعمال نیک نیتی سے کرتے رہیں گے۔"
میڈیا کمیشن کیس کی سماعت کے دوران جیونیوز کے سینئر صحافی حامد میر سے مکالمہ کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے لیے لیڈر شپ بہت مقدم ہے، پارٹی صدارت سے متعلق سمجھنے کے لیے سوالات کررہے تھے کہ کوئی ایسا شخص پارٹی لیڈر بن سکتا ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ ججز کسی کو ہدف نہیں بناتے، باہمی بات چیت یا ریمارکس کو غلط رنگ دیا جارہاہے۔
حامد میر نے چیف جسٹس کو یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ ایسے لوگ مسلسل عدلیہ کو نشانہ بنا رہے ہیں ان کی طرف کوئی توجہ نہ دیں۔
حامد میر کی تجویز پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت ایسے لوگوں کی باتوں پر بالکل توجہ نہیں دے رہی۔
میڈیا کمیشن کی سماعت کے دوران کیس میں درخواست گزار سینیئر اینکر پرسن حامد میر نے عدالت کو بتایا کہ حکومت نے ابھی تک پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) سے متعلق ضابطہ اخلاق متعارف نہیں کرایا۔
ان کا کہنا تھا کہ پیمرا کی آزادی کو بھی یقینی نہیں بنایا جاسکا، حکومت نے حال ہی میں ہمارے اندر سے ایک صحافی کو چیئرمین پیمرا مقرر کیا لیکن وہ بھی بے اختیار ہی رہے۔
حامد میر کا کہنا تھا کہ ایک طر ف حکومت عدالت کے احکامات پر عملدرآمد کا دعویٰ کر رہی ہے جبکہ دوسری طرف حکومت خود اپنے جمع کرائے گئے تحریری جواب میں تسلیم کر رہی ہے کہ پیمرا حکومت کے زیر انتظام کام کر رہا ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ریگولیٹری اتھارٹیز بغیر سربراہ کے ہی کام کر رہے ہیں جس سے ان کی آزادی پر حرف آتا ہے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے سیکرٹری وزارت اطلاعات سے کہا کہ پیمرا کی آزادی سے متعلق اتھارٹی کے سربراہ کے تعین کا طریقہ کار اور اس کی مدت ملازمت سے ہی معلوم ہوسکے گا کہ حکومت نے پیمرا کو کتنی آزادی دی ہے۔
کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے بول ٹی وی سمیت متعدد ٹی وی چینلز کو صحافیوں کی تنخواہ اور واجبات کی ادائیگی سے متعلق ہدایات دیتے ہوئے قانونی نوٹس بھی جاری کردیے۔