Time 22 فروری ، 2018
بلاگ

موروثی سیاست بمقابلہ عروسی سیاست

جھوٹ بہت مقبول ہے۔ زعم مقبولیت میں کبھی چیختا ہے، کبھی غراتا ہے اور سینے پر ہاتھ مار مار کر پوچھتا ہے کہاں گئی تمہاری سچائی؟ آج کل آپ کے اردگرد ایک نہیں کئی جھوٹ ایک دوسرے کو للکارتے پھر رہے ہیں اور مقبولیت کی دوڑ میں آگے بڑھنے کے لئے آپ کے دل کی کھڑکی توڑ کر زبردستی اندر گھسنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 

ان سب کے لہجوں میں زہر ہے اور ان کی مسکراہٹوں میں بھی زہر ہے۔ شہد صرف ان کے وعدوں میں نظر آتا ہے۔ اس ساری گڑبڑ اور توڑ پھوڑ میں آپ کو سچائی ایک کونے میں خاموش کھڑی نظر آئے گی۔ وہ ایک پُرسکون مسکراہٹ کے ساتھ جھوٹوں کی توتکار سُن رہی ہے۔ اُسے مقبولیت کے دعووں سے کچھ لینا دینا نہیں بلکہ اپنی جگہ پر کھڑے رہنا ہے کیونکہ آخرکار سچائی کا بول بالا ہونا ہے۔ 

پتہ نہیں آپ کو اور مجھے یہ سچائی نظر آرہی ہے یا نہیں لیکن آپ کے دل کو اس سچائی کی اپنے اردگرد موجودگی کا احساس ضرور ہو جائے گا کیونکہ یہ سچائی دراصل آپ کے اندر موجود ہے لیکن ہم سب اسے اکثر باہر تلاش کرتے رہتے ہیں۔ اگر آپ اسے سچے دل کے ساتھ تلاش کریں گے تو شاید آپ کو اپنے اندر سے آواز آئے گی کہ نواز شریف کی موروثی سیاست عمران خان کی عروسی سیاست پر حاوی ہو رہی ہے لیکن ان دونوں کی مقابلے بازی میں اصول پسندی کے کئی دعوے قربان کئے جا چکے ہیں۔ 

نواز شریف کی موروثی اور عمران خان کی عروسی سیاست کے مقابلے پر آصف علی زرداری نے جاسوسی سیاست متعارف کروائی ہے جس کا عملی مظاہرہ انہوں نے بلوچستان میں کیا جہاں خاموشی کے ساتھ جوڑ توڑ کے ذریعہ نواب ثناء اللہ زہری کی حکومت کو فارغ کروا دیا گیا لیکن اس جاسوسی سیاست کی کامیابی سے بلوچستان کے عام لوگوں کو کیا فائدہ ہوا؟ ہو سکتا ہے کہ نواز شریف کی ’’زلف‘‘ کے اسیر بہت زیادہ بُرا منا جائیں اور کہیں کہ ہماری اصولی سیاست کو موروثی سیاست قرار دینا دراصل چاند کے منہ پر تھوکنے کے مترادف ہے۔ عرض صرف یہ کرنا ہے کہ جس سیاسی جماعت کی سربراہی ہمیشہ ایک خاندان کے اندر ہی رہے اُس جماعت کی سیاست کو موروثی سیاست نہ کہیں تو کیا کہیں؟

ایک زمانہ تھا جب عمران خان پر تنقید کی پاداش میں سوشل میڈیا پر گالیوں کے ایک طوفان کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ پھر زمانہ بدل گیا۔ اب صرف عمران خان نہیں بلکہ نواز شریف کے حامی بھی گالیوں کا طوفان برپا کر دیتے ہیں بلکہ وسطی پنجاب سے تعلق رکھنے والے سائبر کمانڈوز تو آپ کے باپ دادا کو بھی قبروں میں جگا جگا کر گالیاں سنانے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنی ’’نظریاتی تربیت‘‘ کی پختگی کے ہولناک مظاہرے کرتے ہیں۔ نواز شریف کی سیاست کو موروثی اور عمران خان کی سیاست کو عروسی قرار دینا خطرے سے خالی نہیں لیکن امید ہے کہ عمران خان کے حامی اپنی گالی گلوچ صرف میری ذات تک محدود رکھیں گے، میرے باپ دادا کی قبروں میں گھسنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ 

شادی ایک ذاتی معاملہ ہے اور عمران خان کو66سال کی عمر میں تیسری شادی کرنے کا حق حاصل ہے لیکن اس شادی نے اُن کے دشمنوں کو کم اور دوستوں کو زیادہ پریشان کیا ہے۔ شادی کرنی تھی تو سادہ طریقے سے کر لیتے لیکن اس شادی کو پُراسرار بنا دیا گیا۔ عمران خان کے دوستوں پر سوالات کی بھرمار ہو گئی۔ ان کے پاس جواب نہیں تھے اور اسی لئے کچھ لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ نواز شریف کی موروثی سیاست عمران خان کی عروسی سیاست پر حاوی ہو گئی ہے۔ 

عمران خان نے اپنے کچھ دوستوں کو یقین دلایا ہے کہ گھبراؤ نہیں میں کچھ ہی دنوں میں نواز شریف کی موروثی سیاست اور آصف علی زرداری کی جاسوسی سیاست کو ایک ہی سکے کے دو رُخ ثابت کر دوں گا۔ ویسے عمران خان کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ نواز شریف اور آصف علی زرداری خود ہی کوئی ایسا کام کر جاتے ہیں جس کے بعد لوگ مجبوری میں ایک دفعہ پھر عمران خان کی طرف دیکھنے لگتے ہیں اور بے بسی سے کہتے ہیں یہ صرف غلط وقت پر شادی ہی تو کرتا ہے کم از کم ججوں اور جرنیلوں کو ٹکریں تو نہیں مارتا اور اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی تو نہیں دیتا۔

آپ کو یاد ہو گا کچھ دن پہلے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے مجھے انٹرویو دیتے ہوئے یہ کہا تھا کہ اُنہوں نے اپنی پارلیمانی پارٹی اور کابینہ کے ارکان کو ہدایت کی ہے کہ وہ ریاستی اداروں پر تنقید سے گریز کریں۔ جیو نیوز پر نشر ہونے والے اس انٹرویو میں وزیراعظم صاحب نے یہ بھی کہا تھا کہ کابینہ کے دو ارکان طلال چوہدری اور دانیال عزیز کو چاہئے کہ سپریم کورٹ سے معافی مانگ لیں۔ اس انٹرویو پر نواز شریف کو شاہد خاقان عباسی کے خلاف خوب بھڑکایا گیا۔ خاص طور پر کچھ ٹی وی اینکر اور تجزیہ کار بہت ناراض ہوئے جو عدلیہ پر تنقید میں بہت آگے آگے تھے اور نواز شریف کی خوشنودی کے لئے خطرات سے کھیل کر مجاہد جمہوریت کا لقب پانے کی کوشش میں تھے۔ 

میڈیا کی کچھ دیگر شخصیات نے بھی مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے ساتھ ڈبل گیم کا شکوہ کیا اور کہا کہ ہمیں عدلیہ سے لڑایا جا رہا ہے جبکہ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے ذریعہ عدلیہ کے ساتھ معاملات ٹھیک رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ 

ان شکوے شکایتوں کو ختم کرنے کے لئے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سے تقاضا کیا گیا کہ وہ عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی میں رکاوٹ بننے کی بجائے اس محاذ آرائی کا حصہ بنیں۔ وزیراعظم صاحب کو سر تسلیم خم کرنا پڑا کیونکہ وہ خاندان سے باہر کے آدمی ہیں اور باہر والوں کی وفاداری پر سوال اٹھانا بڑا آسان ہوتا ہے لہٰذا اُنہوں نے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں کہا کہ اب پارلیمنٹ میں عدلیہ کے فیصلوں اور ججوں کے کنڈکٹ پر بات کی جا سکتی ہے۔ 

دوسری طرف چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھی واضح الفاظ میں کہا ہے کہ پارلیمنٹ سپریم ہے لیکن پارلیمنٹ کے اوپر آئین ہے اور عدلیہ کی حدود آئین نے طے کی ہیں۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ طلال چوہدری اور دانیال عزیز کو توہین عدالت کی سزا سے بچانے کے لئے قانونی نہیں سیاسی راستہ اختیار کیا جا رہا ہے اور خبر یہ ہے کہ کچھ وزراء پر دباؤ ڈالا گیا ہے کہ وہ سینہ تان کر نواز شریف کے دو پیاروں کے ساتھ کھڑے ہو جائیں۔

مسلم لیگ (ن) کے کچھ وزراء کا خیال ہے کہ سینیٹ ٹکٹوں میں ہونے والی ناانصافی پر بے چینی کو ختم کرنے کے لئے عدلیہ سے محاذ آرائی میں شدت پیدا کی جا رہی ہے۔ ان وزراء کا کہنا ہے کہ جب نواز شریف نے چیف جسٹس کو پرویز مشرف کے پی سی او پر حلف کا طعنہ مارا تو اگلے ہی دن نواز شریف نے مشرف کی بنائی گئی ق لیگ کے سیکرٹری جنرل مشاہد حسین کو سینیٹ کا ٹکٹ دیدیا جس پر ہم نے سوال اٹھایا کہ مشاہد حسین کے معاملے پر ہمیں مشرف کیوں یاد نہیں آتا؟ ہم واقعی بڑے مقبول ہیں کیونکہ ہم طارق فاطمی کے بجائے مشاہد حسین کو ٹکٹ دے کر اپنی اصول پسندی کو تماشا بناتے ہیں۔ اس سوال کو دبانے کے لئے عدلیہ کو ٹکریں مارنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ابھی بھی وقت ہے یہ فیصلہ واپس لے لیں۔ کچھ دن بعد آپ کو موروثی سیاست لہولہان اور عروسی سیاست مسکراتی نظر آئے گی۔ دونوں سچائی سے دور ہی رہیں گے۔

سینئر صحافی حامد میر کا کالم 22 فروری کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔