26 فروری ، 2018
کوئٹہ: بلوچستان کے پری میڈیکل کے طلباء وطالبات گزشتہ تین ہفتے سے اپنے مطالبات کے حق میں کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی دھرنا دے کر بیٹھے ہیں، طلبہ کا الزام ہے کہ میڈیکل کالجز کے داخلہ ٹیسٹ میں بے ضابطگیاں اور بدانتظامی ہوئی ہیں، لہذا وہ اس ٹیسٹ اور اس کے نتائج کو مسترد کرتے ہیں۔
6 فروری سے احتجاج پر بیٹھے ان طلبہ کا تعلق بلوچستان کے مختلف اضلاع سے ہے، جن میں مکران ڈویژن کی طالبات بھی شامل ہیں۔
ان میں سے بیشتر طلباء وطالبات اپنے اپنے علاقوں سے کوئٹہ میں آکر مختلف نجی اکیڈمیوں میں بھاری فیس دے کر گزشتہ کئی مہینوں سے میڈیکل ٹیسٹ کی تیاریوں میں مصروف تھے، لیکن وہ اس ٹیسٹ کے انعقاد سے مطمئن نہیں ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ اس ٹیسٹ کو منسوخ کیا جائے، اسی مطالبے کے حق میں یہ طلبہ روزانہ پریس کلب کے باہر اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے آتے ہیں۔
بلوچستان ہائر ایجوکیشن کے زیر نگرانی بولان میڈیکل کالج کوئٹہ سمیت خضدار، لورالائی اور تربت کے میڈیکل کالجز میں داخلے کے لیے انٹری ٹیسٹ 4 فروری کو منعقد ہوئے، جن میں صوبے بھر سے 4 ہزار 850 طلباء و طالبات نے حصہ لیا، میڈیکل کالجوں کی ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس کی مجموعی نشستیں 410 ہیں۔
واضح رہے کہ خضدار، لورالائی اور مکران میں قائم ہونے والے نئے میڈیکل کالجوں کے لیے پہلی بار ٹیسٹ ہوئے تھے۔ٹیسٹ کے لیے جامعہ بلوچستان کے آڈیٹوریم کا انتخاب کیا گیا جہاں کلوز سرکٹ کیمرے بھی نصب ہیں۔
یاد رہے کہ پہلی بار میڈیکل کالجز کے لیے داخلہ ٹیسٹ ایچ ای سی کے زیر نگرانی کرائے گئے، اس سے قبل ہر سیشن کا ٹیسٹ نیشنل ٹیسٹنگ سروس کے ذریعے منعقد کروایا جاتا تھا، تاہم شکایات اور اعتراضات کے بعد این ٹی ایس کی بجائے اس بار ایچ ای سی کے تحت ٹیسٹ کرائے گئے۔
کوئٹہ پریس کلب کے باہر احتجاجی دھرنے میں بلوچستان کے ضلع پشین سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم عطاء الرحمان نے بتایا کہ انہوں نے ٹیسٹ کے لیے اتنی محنت سے تیاری کی ہے لیکن ٹیسٹ کے دوران ہونے والی بے ضابطگیوں اور میرٹ کی پامالی سے تمام محنت کرنے والے قابل اسٹوڈنٹس کو کافی مایوسی ہوئی ہے۔
ضلع پنجگور سے تعلق رکھنے والی طالب علم سنگین بلوچ بھی داخلہ ٹیسٹ میں شریک تھیں، انہوں نے الزام عائد کیا کہ ٹیسٹ کے دوران بعض امیدوارں نے نقل کی، جبکہ موبائل فونز کا بھی کھلم کھلا استعمال کیا گیا ۔
دوسری جانب میڈیکل داخلہ ٹیسٹ میں پوزیشن لینے والے امیدوار بھی تشویش میں مبتلا ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ٹیسٹ منسوخ ہو اور ان کی پوزیشن چلی جائے، لہذا انہوں نے بھی پریس کانفرنس کے ذریعے یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس ٹیسٹ سے مطمئن ہیں اور اسے منسوخ نہیں کیا جانا چاہیے۔
اُدھر وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو نے طلباء وطالبات کے احتجاج اور اس مسئلے کے حل کے لیے ڈپٹی کمشنر کوئٹہ کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی اور طلبہ کو یقین دہانی بھی کروائی کہ اگر واقعی ان کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے تو وہ ان کے ساتھ ہیں اور اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
ڈپٹی کمشنر کوئٹہ کیپٹن (ر) فرخ عتیق کی سربراہی میں کمیٹی نے میڈیکل کالجز کے داخلہ ٹیسٹ میں بے ضابطگیوں سے متعلق تحقیقات کے بعد رپورٹ جاری کردی۔
رپورٹ کے مطابق ہائر ایجوکیشن کمیشن شفاف طریقے سے داخلہ ٹیسٹ کا انعقاد کروانا چاہتی تھی تاہم امتحان لینے والے اسٹاف کی جانب سے بد انتظامی کا مظاہرہ کیا گیا، امتحانی ہال میں موبائل فونز آئے، ہال میں طلبہ کے درمیان باتیں ہوئیں، امتحانی قوائد کی خلاف ورزی ہوئی لیکن کسی امیدوار کا پرچہ منسوخ نہیں ہوا اور انکوائری کمیٹی کی درخواست کے باوجود ٹیسٹ کے نتائج کا اعلان کردیا گیا۔
رپورٹ میں یہ سفارشات بھی درج تھیں کہ ایچ ای سی مستقبل میں نقل اور بدانتظامی کی روک تھام کے لیے امتحانی اسٹاف کو بہتر تربیت فراہم کرے، امتحانی ہال میں لگے سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ امیدواروں کے درمیان سرگوشیاں اور آپس میں باتیں ہوئیں، موبائل فون کا بھی استعمال ہوا جو کہ جنرل امتحانی قوائد کی خلاف ورزی ہے، کمیٹی نے سفارش کی کہ دوبارہ ٹیسٹ کا انعقاد مناسب آپشن رہے گا۔
کمیٹی کی رپورٹ آنے کے دن وزیراعلیٰ بلوچستان نے ایک پریس کانفرنس کے دوران میڈیا کو آگاہ کیا کہ وہ اس مسئلے کے حل کے لیے جلد ایک میٹنگ بلائیں گے جس کی سربراہی وہ خود کریں گے، جس میں چیف سیکرٹری بلوچستان، محکمہ صحت اور ایچ ای سی کے نمائندے سمیت دیگر متعلقہ حکام بھی شریک ہوں گے۔
لیکن 15 روز گزر جانے کے باوجود نہ تو میٹنگ بلائی گئی اور نہ اس مسئلے پر بات کی گئی اور طلباء وطالبات کا احتجاجی دھرنے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
احتجاجی طلبہ کا مطالبہ ہے کہ ڈی سی کی تحقیقاتی رپورٹ میں میڈیکل کے داخلہ ٹیسٹ میں بے ضابطگیوں اور بد انتظامی واضح ہوگئی ہے، اس کے باوجود اب تک اس مسئلے کے حل پر کوئی توجہ نہیں دی گئی اور اس تاخیر سے ان کا تعلیمی سال ضائع ہو رہا ہے، طلبہ نے وزیراعلیٰ بلوچستان، محکمہ صحت کے حکام اور ایچ ای سی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ دوبارہ صاف اور شفاف داخلہ ٹیسٹ کا انعقاد کیا جائے۔