28 فروری ، 2018
اسلام آباد: قومی سلامتی کمیٹی نے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر بھارتی جارحیت کی سخت مذمت کرتے ہوئے 2018 میں اب تک سیز فائر معاہدے کی 400 سے زائد مرتبہ خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کیا۔
وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں وزیر خارجہ خواجہ آصف، وزیر داخلہ احسن اقبال، وزیر دفاع خرم دستگیر اور آرمی چیف جنرل قمر باجوہ سمیت تینوں مسلح افواج کے سربراہان شریک تھے۔
اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے عالمی برادری کی توجہ ہٹانا چاہتا ہے لیکن بھارتی مظالم پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش ہے لہٰذا بھارت ہر صورت امن کو اپنی ترجیح بنائے۔
اعلامیے کے مطابق پاکستان اپنے عوام کے مفاد میں دہشت گردی و انتہا پسندی کے خلاف جنگ جاری رکھے گا، عالمی مفاد میں اپنی جامع پالیسی اور اس پر عمل درآمد جاری رکھیں گے۔
قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں افغانستان میں دیرپا امن کی کوششوں کے عزم کا بھی اعادہ کیا گیا۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ افغانستان کے ساتھ مسلسل اور مستقل رابطوں کی ضرورت ہے اور پاک افغان سرحد پر بارڈر مینجمنٹ سسٹم کا نفاذ اہمیت کا حامل ہے۔
کمیٹی کے اجلاس میں خطے کے دوست ملکوں کےساتھ معاشی شراکت داری کو مضبوط بنانے کے لیے اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا اور سی پیک سے جڑے منصوبوں کو جلد مکمل کرنے اور پاکستان کی ترقی سمیت پورے خطےکی خوشحالی کے لیے آگے بڑھانے پر اتفاق کیا گیا۔
ذرائع نے بتایا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں فائنینشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) سے متعلقہ امور پر جامع اقدامات اٹھائے جانے پر اتفاق کیا گیا ہے۔
اجلاس میں ملکی سلامتی اور خطے کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا جب کہ وزیر خارجہ نے حالیہ دورہ روس اور دو طرفہ تعلقات پر بریفنگ دی۔
کمیٹی میں ایف اے ٹی ایف کے حالیہ اجلاس سے متعلق امور کا بھی جائزہ لیا گیا اور مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ایف اے ٹی ایف اجلاس سے متعلق کمیٹی کو بریف کیا۔
اجلاس میں اتفاق کیا گیا کہ ایف اے ٹی ایف سے متعلقہ امور پر جامع اقدامات اٹھائے جائیں گے۔
یاد رہے کہ ایف اے ٹی ایف نے پیرس میں ہونے والے اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے میں پاکستان کا نام موجود نہیں تھا۔
ترجمان الیگزینڈر ڈانیالے نے کہا تھا کہ ایف اے ٹی ایف پاکستان کا نام گرے فہرست میں شامل کرنے کی خبروں کی ذمہ دار نہیں ہے۔
ترجمان کے مطابق پاکستان کو تادیبی اقدامات کرنے کے لیے 3 ماہ کا وقت دیا گیا ہے اور اس دوران پاکستان نے یہ اقدامات نہ اٹھائے تو اس کے لیے مشکلات ہوسکتی ہیں۔