02 مارچ ، 2018
اسلام آباد: احتساب عدالت نے نیب ریفرنسز میں نوازشریف کی جانب سے پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء کا ایک ہی بار بیان لینے کی درخواست مسترد کردی۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنسز کی سماعت کی۔
سابق وزیراعظم نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد صفدر بھی احتساب عدالت میں پیش ہوئے۔
احتساب عدالت میں فلیگ شپ انویسٹمنٹ اور العزیزیہ ضمنی ریفرنسز کی سماعت کے دوران گذشتہ روز 5 گواہوں کے بیان قلمبند کیے گئے جب کہ مزید 3 گواہوں کو آج طلب کیا گیا تھا، جن میں عبدالحنان، رضوان خان اور سنیل اعجاز شامل تھے۔
گزشتہ روز سماعت کے دوران خواجہ حارث اور نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل کے درمیان 3 بار تلخ کلامی بھی ہوئی اور نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے 3 بار روسٹرم چھوڑ کر کہا کہ وہ ٹرائل کا بائیکاٹ کر رہے ہیں، جس کے بعد عدالت نے دونوں فریقین میں صلح کرائی۔
آج سماعت کے دوران گواہ سنیل اعجاز کا بیان ریکارڈ کرکے اس پر جرح مکمل کرلی گئی جب کہ وقفے کے بعد استغاثہ کے گواہ راؤ عبدالحنان کا بیان ریکارڈ اور اس پر جرح کا سلسلہ جاری رہا۔
نواز شریف کی واجد ضیاء کا بیان ایک ہی بار قلمبند کرنے کی درخواست
عدالت نے سماعت کے دوران سابق وزیراعظم نواز شریف کی تینوں ریفرنسز میں پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء کا ایک ہی بار بیان قلمبند کرانے کی تحریری درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
احتساب عدالت نے نوازشریف کی واجد ضیاء سے ایک ہی ساتھ جرح کرنے کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے اسے مسترد کردیا۔
عدالت نے واجد ضیاء کو ایون فیلڈ ریفرنس میں بیان ریکارڈ کرانے کے لیے 8 مارچ کو طلب کرلیا۔
جب کہ فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس کی سماعت 5 مارچ اور العزیزیہ اسٹیل ملز کی 7 مارچ تک ملتوی کردی۔ پانچ مارچ کو خواجہ حارث گواہ راؤعبدالحنان پر جرح کریں گے۔
فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں 4 گواہ پانچ مارچ اور العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں 6 گواہ 7 مارچ کو طلب کیے گئے ہیں۔
احتساب عدالت نے فلیگ شپ ریفرنس میں مزید تین گواہوں کو طلبی کے سمن جاری کردیئے جن میں شاہد محمود، وقار احمد اور عمر دراز شامل ہیں۔ اس کے علاوہ عدالت نے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں بھی 6 گواہوں کو طلبی کے سمن جاری کردیئے ہیں۔
احتساب عدالت کی جانب سے نوازشریف کی درخواست مسترد کیے جانے کے بعد ریفرنسز پر سپریم کورٹ کی طرف سے دی گئی 6 ماہ کی ڈیڈلائن میں فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا ہے۔
احتساب عدالت کے جج نے 8 مارچ کو واجد ضیاء کو بیان کے لیے طلب کیا ہے جس کےبعد سپریم کورٹ کی 6 ماہ کی مدت ختم ہوجائے گی۔
امکان ظاہر کیا جارہا ہےکہ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نیب ریفرنسز کی مانیٹرنگ کرنے والے سپریم کورٹ کے جج سے مدت بڑھانے کی درخواست کریں گے۔
یاد رہے کہ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کی مدت ملازمت بھی 12 مارچ کو ختم ہورہی ہے جس میں توسیع کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ گذشتہ روز فلیگ شپ انویسٹمنٹ اور العزیزیہ اسٹیل ملز ضمنی ریفرنس کی سماعت کے دوران نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے واجد ضیاء پر تینوں ریفرنسز میں مشترکہ جرح کی درخواست کی تھی۔
تاہم نیب نے مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصلہ ایک ساتھ دینے کی ہدایت کی ہے لیکن جرح الگ الگ ہوگی۔
جس کے بعد احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ایون فیلڈ پراپرٹیز کے ضمنی ریفرنس میں پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء کو اصل ریکارڈ سمیت بیان قلمبند کرانے کے لیے آج طلب کیا، لیکن ان کا بیان ریکارڈ نہیں ہوسکا۔
نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس میں جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء پہلی بار اپنا بیان قلمبند کرائیں گے، اس سے قبل انہیں کیلبری فونٹ کے معاملے پر مریم نواز کے وکیل امجد پرویز کی جرح کا سامنا کرنا پڑے گا۔
نیب ریفرنسز کا پس منظر
سپریم کورٹ کے پاناما کیس سے متعلق 28 جولائی 2017 کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کیے، جو ایون فیلڈ پراپرٹیز، العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسمنٹ سے متعلق تھے۔
نیب کی جانب سے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس (لندن فلیٹس) ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف ان کے بچوں حسن اور حسین نواز، بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو ملزم ٹھہرایا گیا۔
دوسری جانب العزیزیہ اسٹیل ملز جدہ اور 15 آف شور کمپنیوں سے متعلق فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں نواز شریف اور ان کے دونوں بیٹوں حسن اور حسین نواز کو ملزم نامزد کیا گیا ہے۔
نیب کی جانب سے ان تینوں ریفرنسز کے ضمنی ریفرنسز بھی احتساب عدالت میں دائر کیے جاچکے ہیں۔