05 مارچ ، 2018
عمران خان بہت غصے میں ہیں۔ انہوں نے سینیٹ کے انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کا الزام لگایا ہے کیونکہ ان انتخابات میں تحریک انصاف کو ان کی توقعات سے دو نشستیں کم ملی ہیں۔
عمران خان خیبر پختونخوا سے تحریک انصاف کے سات امیدواروں کی کامیابی کے بارے میں پُراعتماد تھے اور دو اتحادی امیدواروں کو بھی کامیاب کرانا چاہتے تھے لیکن انہیں پانچ نشستیں ملیں اور دونوں اتحادی امیدوار بھی ہار گئے۔ عمران خان نے سوال اٹھایا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس خیبر پختونخوا اسمبلی میں سات ارکان تھے لیکن یہ پارٹی دو سینیٹر بنوانے میں کیسے کامیاب ہوئی؟
عمران خان کے سوال میں بڑا وزن ہے کیونکہ خیبر پختونخوا سے ایک سینیٹر کے لئے کم از کم 12ووٹ درکار تھے جبکہ پیپلز پارٹی نے سات ارکان کے ساتھ دو سینیٹر بنوا لئے۔ پورا پاکستان بلکہ پوری دنیا جانتی ہے کہ سینیٹ کی 52نشستوں پر ہونے والے انتخابات میں کئی ووٹ خریدے گئے لیکن یہ کام تو خود تحریک انصاف نے بھی کیا۔
پنجاب سے تحریک انصاف کے کامیاب ہونے والے امیدوار چوہدری سرور کے پاس صوبائی اسمبلی میں صرف 30 ووٹ تھے لیکن انہیں 44 ووٹ ملے اور مسلم لیگ (ن) نے ان پر ہارس ٹریڈنگ کا الزام لگایا ہے۔ کیا چوہدری سرور کو 14اضافی ووٹ مفت میں مل گئے؟ اصولی طور پر تو عمران خان کو چاہئے کہ چوہدری سرور کو سینیٹر بننے پر مبارکباد دینے سے بھی گریز کریں لیکن شاید اُن کے خیال میں ہارس ٹریڈنگ خیبر پختونخوا میں ایک برائی ہے لیکن پنجاب میں برائی نہیں ہے۔ سینیٹ کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی نے پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے ووٹ خریدے اور مسلم لیگ (ن) نے خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کے ووٹوں پر ہاتھ صاف کئے۔
پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے پاس صرف آٹھ ارکان ہیں لیکن پیپلز پارٹی کے امیدوار نواب شہزاد علی خان نے 26ووٹ حاصل کئے۔ مالیر کوٹلہ کے نواب خاندان سے تعلق رکھنے والے اس فرزند کو 18اضافی ووٹ کہاں سے ملے؟ پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی نے 18اور تحریک انصاف نے 14اضافی ووٹ لئے۔ مسلم لیگ (ق) کے آٹھ میں سے تین ووٹ کم ہوئے جس کا مطلب ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے دو درجن سے زائد ارکان پنجاب اسمبلی نے ووٹ دوسری جماعتوں کو دیئے حالانکہ پولنگ والے دن پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے ہر ایم پی اے کو ووٹ ڈالنے سے قبل حلف دینا پڑ رہا تھا اور قسمیں کھانی پڑ رہی تھیں کہ وہ پارٹی کے ساتھ دھوکہ نہیں کرے گا۔
جو کچھ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ پنجاب میں ہوا وہی تحریک انصاف کے ساتھ خیبر پختونخوا میں ہوا۔ یہاں تحریک انصاف کے 12ارکان نے دوسری پارٹیوں کے امیدواروں کو ووٹ دیئے۔ تحریک انصاف کے ووٹ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے علاوہ جے یو آئی (ف) کے ایک اُمیدوار کو بھی ملے اور شاید اسی لئے عمران خان ہارس ٹریڈنگ کا الزام لگا رہے ہیں۔
خیبر پختونخوا اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے چھ ارکان تھے۔ کچھ عرصہ قبل تحریک انصاف کے ایک باغی رکن ضیاء اللہ آفریدی پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے اور پھر ضیاء اللہ آفریدی نے عمران خان کے گھر میں نقب لگانی شروع کی اور بہت کچھ لوٹ لیا۔ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کے ایک درجن کے قریب ارکان اسمبلی کی بغاوت کے پیچھے محض مالی مفادات نہیں ہیں۔ کچھ ارکان کو سینیٹ کے لئے دی جانے والی ٹکٹوں پر اعتراض تھا اور وہ پوچھ رہے تھے کہ عمران خان کچھ ارب پتی افراد کو سینیٹ میں بھیج کر کون سی تبدیلی لانا چاہتے ہیں؟
عمران خان کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ اُن کی کچھ حالیہ غلطیوں نے اُنہیں شدید سیاسی نقصان سے دوچار کیا ہے۔ ایسی ہی غلطیاں نواز شریف بھی کر رہے ہیں۔ نواز شریف کو ایک سنہری موقع ملا تھا۔ وہ سینیٹ کے حالیہ انتخابات میں میرٹ پر ایسے لوگوں کو ٹکٹیں دے سکتے تھے جو ایوان بالا میں جا کر نواز شریف کے سیاسی موقف کو بڑے جاندار انداز میں پیش کر سکتے تھے لیکن نواز شریف نے مسلم لیگ (ق) کے سابق سیکرٹری جنرل مشاہد حسین کو اپنا ہم سفر بنا لیا اور یہ پیغام دیا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کے کچھ دروازے کھلے رکھنا چاہتے ہیں۔
اسد جونیجو کئی سال سے عملی سیاست میں غیرمتحرک ہیں۔ ان کو ٹکٹ دے کر نواز شریف نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ محمد خان جونیجو جس کے مقابلے پر ایک دفعہ میں نے جنرل ضیاء الحق کا ساتھ دیا تھا اُس جونیجو کا بیٹا آج میرے ساتھ ہے۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) نے کچھ ایسے لوگوں کو بھی ٹکٹ دے دیئے جو پاکستان میں رہتے ہی نہیں اور سینیٹ میں تقریر تو دور کی بات کوئی سوال اٹھانے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے۔ انہی میں ایک زبیر گل بھی تھے۔ مسلم لیگ (ن) کے اندر زبیر گل کے خلاف ایک خاموش کارروائی کا منصوبہ بنایا گیا اور نواز شریف کے خاندان کے افراد نے زبیر گل کے بجائے ملتان کے ایم پی اے رانا محمود الحسن کو سینیٹر بنوا دیا۔ وہ لوگ جو عوامی جلسوں میں نواز شریف کے لئے جانیں قربان کرنے کے دعوے کرتے ہیں اُنہوں نے سینیٹ کے انتخابات میں نواز شریف کے امیدوار کو ہروا کر اُسے پیغام دیا کہ ہم نواز شریف کی خاطر مر سکتے ہیں تمہاری خاطر نہیں مر سکتے تم برطانیہ واپس جاؤ۔
پیپلز پارٹی والے بہت خوش ہیں کہ انہوں نے سینیٹ کے انتخابات میں توقعات سے زیادہ کامیابی حاصل کی ہے لیکن پیپلز پارٹی کے کئی امیدوار جیت کر بھی ہار گئے ہیں۔ جب اُن سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ کے پاس تو مطلوبہ ووٹ ہی نہیں تھے آپ کس طرح کامیاب ہو گئے تو یہ جیتے ہوئے امیدوار شرم سے سر جھکا لیتے ہیں۔
سینیٹ کے اس الیکشن کے نتائج نے ثابت کیا ہے کہ مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی میں کوئی فرق نہیں رہ گیا۔ تینوں بڑی جماعتیں پاور پالیٹکس کر رہی ہیں لیکن اس الیکشن کے کچھ مثبت پہلو بھی ہیں۔ سینیٹ کے الیکشن کے بعد قومی اسمبلی کے الیکشن کے بارے میں غیریقینی کی فضا ختم ہو جانی چاہئے۔ اس الیکشن میں بڑی جماعتوں نے ہارس ٹریڈنگ کی لیکن ہارس ٹریڈنگ کے اس شور میں سندھ سے پہلی دلت خاتون کرشنا کماری، پنجاب سے ڈاکٹر آصف کرمانی اور ڈاکٹر مصدق ملک جیسے پڑھے لکھے افراد اور خیبر پختونخوا سے فیصل جاوید خان اور مشتاق احمد خان جیسے سیاسی کارکن کا سینیٹ میں پہنچنا نیک شگون ہے۔
جماعت اسلامی کے مشتاق احمد خان کے پاس سات ووٹ تھے۔ انہیں پانچ ووٹوں کی ضرورت تھی۔ یہ پانچ ووٹ انہیں اے این پی سے ملے۔ جماعت اسلامی اور اے این پی ایک دوسرے کی نظریاتی مخالف ہیں لیکن اس الیکشن میں دونوں نے ایک دوسرے کو ووٹ دیا۔ جماعت اسلامی کو کامیابی مل گئی، اے این پی کو نہیں ملی لیکن دونوں کا ایک دوسرے کے ساتھ بے لوث تعاون ہارس ٹریڈنگ کے اندھیرے میں روشنی کی ایک کرن ہے۔ بلوچستان میں نیشنل پارٹی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے ارکان اسمبلی نے بھی اپنے ضمیر نہیں بیچے جس کا مطلب ہے سب بُرا نہیں ہے۔ نئے چیئرمین سینیٹ کے لئے جوڑ توڑ شروع ہو چکا ہے۔ مسلم لیگ (ن) میں پرویز رشید ہاٹ فیورٹ ہیں۔
ایک وفاقی وزیر کا خیال ہے کہ پرویز رشید کو چیئرمین سینیٹ بنوا کر نواز شریف اپنی کئی غلطیوں کا کفارہ ادا کر سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی اپنا چیئرمین لانا چاہتی ہے اور رضا ربانی اچھے امیدوار ہیں لیکن اس مرتبہ پیپلز پارٹی کی قیادت کسی اور کو لانا چاہتی ہے۔ پیپلز پارٹی کو اپنا چیئرمین سینیٹ لانے کے لئے تحریک انصاف کی حمایت درکار ہو گی اور تحریک انصاف کے لئے یہ بہت مشکل ہو گا۔ اگر پیپلز پارٹی نے رضا ربانی کو دوبارہ اپنا امیدوار بنا لیا تو شاید مسلم لیگ (ن) ان کی حمایت کر دے۔ ایسی صورت میں نواز شریف اور آصف زرداری ایک دوسرے سے ہاتھ ملائے بغیر عمران خان کے غصے میں مزید اضافہ کرسکتے ہیں۔
سینئر صحافی حامد میر کا کالم 5 مارچ 2018 کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوا
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔