Time 12 مارچ ، 2018
بلاگ

قیمے والے نان پر پابندی؟

’’قیمے والے نان پر پابندی لگا دینی چاہیے‘‘

’’وہ کیوں؟‘‘

’’اس لئے کہ قیمے والے نان جمہوریت کیلئے خطرہ بن گئے ہیں۔‘‘

’’وہ کیسے جناب؟‘‘

’’کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ نواز شریف کے جلسوں میں غریب عوام ججوں کے خلاف تقریریں سننے نہیں آتے بلکہ قیمے والے نان کھانے آتے ہیں اگر قیمے والے نان بند کر دیئے جائیں تو نواز شریف کے جلسوں میں لوگ آنا کم ہو جائیں گے۔ ‘‘

’’اچھا اچھا تو آپ قیمے والے نان پر پابندی کی بات طنزیہ انداز میں کر رہے ہیں تاکہ آپ نواز شریف کو پاکستانی سیاست کا سب سے بڑا مزاحمتی کردار بنا کر پیش کر سکیں اور جاوید ہاشمی اس پاکستانی چے گویرا کے سامنے بونا بن جائے۔ ‘‘

’’یہ تو آپ کو ماننا پڑے گا کہ آج نواز شریف پاکستان کا سب سے زیادہ پاپولر لیڈر ہے اور پاکستان کے تمام ریاستی اداروں کی طاقت اُس کے سامنے زیرو ہو چکی ہے وہ عوام کے دلوں کی دھڑکن بن چکا ہے۔ ‘‘

’’ہاہاہا۔ مجھے آپ کی اور نواز شریف کی خود فریبی پر ترس آتا ہے۔ یاد کریں نومبر 1997ء میں نواز شریف نے لاہور سے چند سو افراد کو بسوں میں بھر کر پنجاب ہائوس اسلام آباد بلایا۔ ان کو دہی کے ساتھ قیمے والے نان کھلائے اور پھر سپریم کورٹ پر حملہ کرا دیا۔ اُس وقت کا چیف جسٹس سجاد علی شاہ سندھ سے تعلق رکھتا تھا شاید اسی لئے کچھ نہ کر سکا لیکن اپنی تذلیل کی ساری داستان ایک کتاب میں لکھ گیا۔

اس کتاب کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ 1997ء میں نواز شریف کی حکومت ججوں کو تقسیم کرنے میں کامیاب رہی لہٰذا عدلیہ کے خلاف جنگ جیت گئی لیکن بیس سال کے بعد نواز شریف عدلیہ کو تقسیم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے اس لئے وہ شکست کھا چکے ہیں، شکست کو چھپانے کے لئے انہوں نے ہاہاکار مچا رکھی ہے اور اس ہاہاکار میں میڈیا کے وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کا کوئی نہ کوئی بالواسطہ یا بلاواسطہ مفاد نواز شریف کے ساتھ وابستہ ہے۔ ‘‘

’’دیکھئے صاحب آپ نواز شریف پر تنقید ضرور کریں لیکن میڈیا کی آزادی پر حملہ نہ کریں۔ ‘‘

’’آپ تو بُرا منا گئے۔ میں اُن میڈیا والوں کا ذکر نہیں کر رہا جن کو نواز شریف نے سرکاری عہدے دیئے میں تو اُن کا ذکر کر رہا ہوں جن کے ساتھ راحیل شریف کی وجہ سے دھوکہ ہو گیا۔ ‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘

’’مطلب یہ کہ جب میڈیا میں تھینک یو راحیل شریف کا نعرہ روز گونجتا تھا تو کچھ میڈیا والوں کو یقین ہو گیا کہ فیلڈ مارشل راحیل شریف پاکستانی فوج کے تاحیات سپہ سالار بن چکے ہیں لہٰذا میڈیا کے بڑے بڑے نام راحیل شریف کے ’’بول‘‘ کو بالا کرنے کے لئے ایک مشہور زمانہ چینل میں جمع ہو گئے لیکن راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے ساتھ ہی ان میڈیا والوں کا بھی تھینک یو ہو گیا۔ ان سب کے کپڑوں پر داغ لگ گیا لہٰذا راحیل شریف سے لاتعلقی ثابت کرنے کے لئے ان سب کو نواز شریف کے حق میں گلا پھاڑنا پڑتا ہے تاکہ عوام کی توجہ ان کے دامن پر لگے داغوں کی طرف نہ جائے کیونکہ سب داغ اچھے نہیں ہوتے۔‘‘

’’یہ اچھے داغ کون سے ہوتے ہیں؟‘‘

’’ارے بھائی یہ جو سیالکوٹ میں ایک گمراہ مولوی نے وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف کے چہرے پر سیاہی گرائی اس سیاہی کے داغوں سے خواجہ صاحب کو نقصان نہیں بہت فائدہ ہوا۔ انہوں نے اپنے چہرے پر پانی کے چند چھینٹے مارے اور کچھ لمحوں کے بعد اپنے داغ داغ کپڑوں کے ساتھ تقریر کے لئے واپس آ گئے۔ ایسے داغ انسان کی زندگی میں اجالا بن جاتے ہیں۔‘‘

’’تو آپ مانتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کے لیڈروں پر جوتیاں چلا کر اور سیاہی گرا کر انہیں شکست نہیں دی جاسکتی۔ ‘‘

’’بالکل یہ ماننا پڑے گا کہ سیاستدان کو جوتے اور سیاہی کے ذریعہ شکست نہیں دی جا سکتی لیکن جو سیاستدان عوام کے ساتھ جھوٹ بولتا ہے اُس کے چہرے پر تاریخ سیاہی پھینک دیتی ہے۔‘‘

’’سمجھ نہیں آئی۔ ذرا کھل کر بات کریں۔ ‘‘

’’کیا کھل کر بات کروں۔ لوگوں کو سب سمجھ آ جاتی ہے۔ اب دیکھئے ناں پچھلے جمعہ کو شاہد خاقان عباسی کی کابینہ کے ایک اہم وزیر نے اسحاق ڈار کے خلاف انتہائی اہم دستاویزات ایک ریاستی ادارے کے حوالے کر دی ہیں جب یہ دستاویزات عدالت کے سامنے آئیں گی تو عدالت کو سزا سنانا پڑے گی اور پھر یہ سزا ایک داغ بن جائے گی۔ یہ سزا کسی ملٹری ڈکٹیٹر کے دور میں کوئی ملٹری کورٹ نہیں سنائے گی بلکہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے دور میں حکومت کے ایک سینیٹر کو منی لارنڈرنگ اور حقائق چھپانے کے الزام میں سنائی جائے گی۔ ایسی سزائیں اچھے داغ نہیں بُرے داغ ہوتے ہیں اور اس قسم کے بہت بُرے بُرے داغ مزید سامنے آنے والے ہیں۔ ‘‘

’’ڈار صاحب کے علاوہ اور کس کس پر داغ لگنے والے ہیں؟‘‘

’’اللہ تعالیٰ سب کو داغوں سے محفوظ رکھے لیکن پتہ چلا ہے کہ برطانیہ کی حکومت نے نواز شریف اور اُن کے خاندان کے بارے میں کچھ ایسی دستاویزات پاکستانی اداروں کے سپرد کر دی ہیں جو عدالتوں میں پہنچ گئیں تو عمران خان کا دل باغ باغ ہو جائے گا اور وہ چلّا چلّا کر کہیں گے کہ نواز شریف جمہوریت کی نہیں منی لانڈرنگ کی علامت ہے۔ دیکھتے ہیں پھر عوام نواز شریف کے جلسوں میں قیمے والے نان کھانے آتے ہیں یا نہیں؟‘‘

’’آپ کی باتیں سن کر میرا دل ڈوبنے لگا ہے۔ ‘‘

’’دل تو میرا بھی ہچکولے کھا رہا ہے کیونکہ صرف نواز شریف کو سزائیں سنائی گئیں تو لوگ پوچھیں گے کہ کیا پاکستان کا قانون صرف سویلینز کے لئے ہے؟ سپریم کورٹ نے صرف نواز شریف کے خلاف نہیں پرویز مشرف کے خلاف بھی ایک فیصلہ دیا تھا اور اُس فیصلے پر عملدرآمد کے لئے مشرف کے خلاف آئین سے بغاوت کا مقدمہ دائر ہوا لیکن یہ مقدمہ انجام کو کیوں نہیں پہنچتا؟ 

وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کو جھٹلانا پاکستان کو کمزور کرنے کے مترادف ہے وہ مشرف کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کب تک کرائیں گے؟ دیکھ لینا جیسے ہی نواز شریف کو سزا سنائی جائے گی تو پاکستان بھر میں مشرف مشرف ہونے لگے گی اور مشرف کے خلاف مقدمہ پاکستانی عدالتوں کے لئے ایک چیلنج نہیں بلکہ ایک چھیڑ بن جائے گا۔‘‘

’’آپ نے بالکل ٹھیک کہا۔ نواز شریف کے ساتھ ساتھ مشرف کو بھی سزا مل جائے تو قیمے والے نان پر پابندی کی نوبت نہیں آئے گی بلکہ ہماری عدالتیں ہمارا فخر بن جائیں گی۔ ‘‘

سینئر صحافی حامد میر کا کالم 12 مارچ 2018 کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوا


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔