بلاگ
Time 17 مارچ ، 2018

فوجی قیادت کی نئی سوچ اور زمینی حقائق

خوبیاں اور خامیاں ہر انسان میں ہوتی ہیں اور پرویز مشرف بھی کچھ ذاتی خوبیوں کے حامل تھے لیکن ماضی قریب میں فوج کے امیج کو سب سے زیادہ نقصان جنرل پرویز مشرف نے پہنچایا تو اس کی بحالی میں کلیدی کردار جنرل اشفاق پرویز کیانی کا رہا ۔ فوج کے مورال کو بحال کرنے اور سول ملٹری تعلقات میں بہتری کے لئے جنرل کیانی کے کردار کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

جنرل راحیل شریف ذاتی لحاظ سے بہت اچھے اور بہادر انسان تھے لیکن ان کی ذاتی خوبیوں کے باوجود ان کے دور میں سول ملٹری تعلقات بھی غیرمعمولی حد تک خراب ہوئے۔ ان کے دور میں فوج نے قربانی اور بہادری کی ایک نئی تاریخ رقم کردی لیکن دھرنوں، لاک ڈاؤن اور ذاتی تشہیر پر حد سے زیادہ توجہ نے سول ملٹری تناؤ کو کم کرنے کی بجائے بڑھا دیا۔ ان کے دور میں میڈیا کو بھی بری طرح غلام بنانے کی کوشش ہوئی اور اسے تقسیم کے گندے عمل سے گزارا گیا جس کا نقصان آج میڈیا کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی پہنچ رہا ہے۔ 

چنانچہ جب جنرل قمر جاوید باجوہ نے بحیثیت آرمی چیف کمانڈ سنبھالی تو انہیں دہشت گردی اور ناکام خارجہ پالیسی جیسے دیرینہ مسائل کے ساتھ ساتھ، انتہائی خراب سول ملٹری تعلقات اور تقسیم میڈیا کے مسائل ورثے میں ملے۔ فہم و فراست،بردباری اور تدبر جنرل اشفاق پرویز کیانی کے اپنی مثال آپ تھے لیکن جنرل قمرجاوید باجوہ کو بھی اللہ تعالیٰ نے بعض غیرمعمولی خوبیوں سے نوازا ہے۔ 

فوجی تو کیا کسی سویلین کو بھی ان کی طرح کھلے ڈھلے انداز میں کھری گفتگو کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ گزشتہ سوا سال کے دوران پانچ چھ مرتبہ ان سے تبادلہ خیالات کا موقع ملا اور ہر موقع پر ایسا گمان ہوتا ہے کہ ان کی زبان دل کی رفیق ہے۔پاکستان میں آئین کی بالادستی اور جمہوریت کے حوالے سے ان کی سوچ بہت راسخ نظر آتی ہے ۔ وہ نجی اور آف دی ریکارڈ محفلوں میں بھی حلفاً قسماً کہتے رہتے ہیں کہ جمہوریت کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں۔

انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے بھی ان کا ذہن یکسو اور سوچ مثبت ہے۔ مثلاً وہ ہر طرح کی عسکری تنظیموں سے پاکستان کو پاک کرنا چاہتے ہیں۔ تکرار کے ساتھ اس فقرے کو بار بار دہراتے اور اپنے ماتحتوں کے ذہنوں میں راسخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وائلنس (Violence) پر اجارہ داری صرف ریاست کی ہونی چاہئے۔ وہ افغانستان میں قیام امن کے اس قدردلی خواہش مند نظر آتے ہیں کہ افغان سفیر ڈاکٹر عمر زاخیلوال بھی ان کے مداح بن گئے ہیں۔

آزادی اظہار کے وہ اس قدر قائل نظر آتے ہیں کہ ہمارے ہاں غدار مشہور کئے جانے والے دانشوروںا ور صحافیوں کا نام سب سے زیادہ عزت اور احترام سے لیتے ہیں۔ ان کے مشیر اُن کو بتاتے رہتے ہیں کہ وہ حکومت کی بجائے ریاست کا لفظ استعمال کیا کریں لیکن وہ بار بار محفلوں میں کہتے رہتے ہیں کہ وہ حکومت کے ملازم ہیں اور یہ کہ وزیراعظم ان کے باس ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی کے لئے آصف علی زرداری، رضاربانی اور فرحت اللہ بابر جیسے لوگوں سے جان چھڑانا چاہتے ہیں لیکن جنرل قمر باجوہ کے ذاتی سوچ کے مثبت ہونے کا یہ عالم ہے کہ وہ رضا ربانی کی ایک فون کال پر سینیٹ کو بریفنگ دینے آ گئے۔ سب سے بڑی خوبی اللہ نے ان کو یہ ودیعت کی ہے کہ تکبر ان کے قریب سے نہیں گزرا اور ملنے والے کو اتنی عزت دیتے ہیں کہ بعض اوقات ڈر لگ جاتا ہے کہ خدانخواستہ کہیں جنرل ضیاء الحق کشادہ سینے اور دراز قدکے ساتھ دوبارہ تو زندہ نہیں ہوئے۔

جنرل قمرجاوید باجوہ جلوتوں میں نہیں بلکہ خلوتوں میں بھی اداروں کے احترام پر زور دیتے ہیں اور عدلیہ کے امیج اور وقار کے بارے میں بہت فکرمند بھی نظر آتے ہیں۔ اسی طرح وہ واحد آرمی چیف ہیں جو کھل کر قومی معاملات کے حوالے سے اپنے ادارے کی ماضی کی غلطیوں یا حال کی کمزوریوں کو کھلے دل کے ساتھ تسلیم کرتے اور سب کے حوالے سے ماضی کو دفن کرکے پاکستان کی تعمیر کے لئے نئے سفر کے آغاز پر زور دیتے ہیں۔

میل جول میں وہ جتنے سادہ اور نرم ہیں ، عمل میں وہ اتنے سخت اور بولڈ (Bold)ہیں ۔ مثلاً ماضی کے آرمی چیفس کمانڈ سنبھالنے کے بعد اپنی ٹیم لانے اور سابق چیف کی ٹیم سے جان چھڑانے میں کم ازکم سال کا عرصہ لگاتے تھے لیکن انہوں نے یہ کام ایک مہینے کے اندر کر ڈالا۔ انہوں نے عسکریت پسندوں کے لئے معافی کا راستہ دینے اور جہادی تنظیموں کے مین اسٹریمنگ کا فیصلہ کیا تو اس مشکل فیصلے پر دنوں میں عمل کروادیا۔ 

انہوں نے جہاد اور قتال سے متعلق مذہبی بنیادوں پر جوابی بیانیے کی ٹھان لی تو چند ماہ کے اندر اندر اپنے اداروں کے ذریعے ملک کے اٹھارہ سو علما سے وہ فتویٰ جاری کروادیاجس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ انہوں نے ان مذہبی لیڈروں کے ذریعے اس آگ کو ٹھنڈا کرنے کی راہ ہموار کی جنہوں نے ماضی میں جنرل ضیاء الحق اور ان کے جانشینوں کے ایما پر یہ آگ بھڑکائی تھی۔ ایک اور خوبی ان کی یہ ہے کہ آرمی چیف بن کر بھی وہ بالکل قبائلی انداز میں دوستی اور دشمنی نبھاتے ہیں۔

مذکورہ اوصاف کے تناظر میں دیکھا جائے تو جنرل قمر جاوید باجوہ سے بجا طور پر یہ امید لگائی جاسکتی ہے کہ وہ پاکستان کو دفاعی ، مذہبی اور سماجی حوالوں سے اس ڈگر پر گامزن کرادیں جس کا خواب قائد اعظم نے دیکھا تھا لیکن چیلنج یہ ہے کہ وہ اپنی سوچ کو اپنے ماتحت اداروں تک کیسے منتقل کریں اور اسے عمل کے روپ میں کیسے ڈالیں۔

بدقسمتی سے آج بھی عملاً گراؤنڈ پر جو کچھ ہورہا ہوتا ہے ، وہ بسا اوقات جنرل صاحب کی مذکورہ سوچ کا عکاس نہیں ہوتا۔ مثلاً جنرل صاحب کی سوچ ہے اور جو بالکل درست سوچ ہے کہ وائلنس اور جہاد پر ریاست کی اجارہ داری ہونی چاہئے۔ ان کی اس سوچ کو آج تک مسلم لیگ (ن) اور جماعت اسلامی سمیت کسی سیاسی جماعت نے چیلنج نہیں کیا لیکن صرف دو مذہبی لیڈر برملا ان کے اس بیانیے کے خلاف بول رہے ہیں اور بدقسمتی سے وہ دونوں آج بھی اداروں کے چہیتے ہیں ۔

اسی طرح جنرل صاحب عدلیہ کے احترام کے لئے فکر مند ہیں اور مسلم لیگ (ن)کی عدلیہ کے ساتھ جاری لڑائی میں ان کے ماتحت ادارے عدلیہ کے ساتھ کھڑے نظرآتے ہیں لیکن ریاستی ادارے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو گالیاں دینے والے خادم حسین رضوی جیسے لوگوں کے منہ بند کرنے کی کوشش کرتے نظر نہیں آتے ۔ وہ فوج کو سیاست سے لاتعلق کرنا چاہتے ہیں لیکن تعلقات عامہ سے متعلق ایک اہم محکمے میں بیٹھے بعض لوگ روزانہ اسکول کے مانیٹر کی طرح میڈیا کو ہدایات دیتے رہتے ہیں۔

انہیں ہندوستان کے پاکستان کے خلاف زہریلے پروپیگنڈے کی کم لیکن پرویز رشید کے انٹرویو جیسے داخلی سیاسی معاملات کی زیادہ فکر لاحق ہوتی ہے۔ ماتحت اداروں کے بعض لوگ آج بھی اس مشن میں لگے ہیں کہ کس طرح میڈیا کو تقسیم کریں اور کس طرح میڈیا کے اندر بے وقار اور جھوٹے لوگوں کو محترم و مکرم ثابت کردیں۔ جنرل صاحب میڈیا سے متعلق بجاشکایت کرتے ہیں کہ پاکستانی میڈیا ایشوز کی بجائے شخصیات کو ڈسکس کرتا رہتا ہے۔

ان کی یہ تشویش بھی بالکل بجا ہے کہ بسا اوقات میڈیا پاکستانی اداروں اور معاشرے کے اندر سبورژن (Subversion) پھیلانے کا موجب بن رہا ہے لیکن بدقسمتی سے یہ کام کرنے والے افراد اور میڈیا ادارے ہی عموماً ماتحت اداروں کے منظور نظر رہتے ہیں ۔ جنرل صاحب سیاست کو گند سے صاف کرنے کے متمنی ہیں لیکن سینیٹ انتخابات کے دوران آصف علی زرداری صاحب بلوچستان سے کراچی اور اسلام آباد سے پشاورتک جو گند کررہے تھے، انہیں اس عمل میں بعض اداروں کی سرپرستی بھی حاصل رہی۔ 

جنرل صاحب عدلیہ کو متحرک دیکھنا چاہتے ہیں اور عزم ظاہر کررہے ہیں کہ عدلیہ کے فیصلوں پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں گے لیکن دوسری طرف عزیر بلوچ کسی عدالت میں پیش ہونے کی بجائے پراسرار طور پر غائب ہےجب کہ سپریم کورٹ کے بار بار نوٹسز کے باوجود راؤ انوار کو گرفتار کرکے پیش نہیں کیاجارہا ۔ ہماری دعا ہے کہ جنرل صاحب اپنی مذکورہ سوچ کو عملی شکل دینے میں کامیاب ہوجائیں اور اپنے ماتحت اداروں میں ان لوگوں کی خبر لے سکیں جو ان کی سوچ اور خیالات کے برعکس سیاست ، صحافت اور عدالت کو الٹ سمت میں لے جانا چاہتے ہیں۔

سینئر صحافی سلیم صافی کا کالم 17 مارچ 2018 کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔