19 مارچ ، 2018
’’پانچ سال بعد 2023ءمیں پاکستان کیسا ہوگا؟‘‘
یہ وہ اہم سوال اور موضوع تھا جس پر مجھے نیشنل کالج آف آرٹس لاہور میں بات کرنا تھی۔ مال روڈ پر نہر کے پل سے این سی اے تک چند کلو میٹر کا فاصلہ چالیس منٹ میں طے ہوا۔ لاہور ہائی کورٹ کے سامنے مال روڈ ادھڑی ہوئی تھی لہٰذا بائیں جانب کے ذیلی راستوں سے این سی اے پہنچا تو سوچ رہا تھا کہ پانچ سال کے بعد لاہور کی ٹریفک کا کیا حال ہوگا؟ این سی اے کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر مرتضیٰ جعفری مجھے شاکر علی آڈیٹوریم لے جا رہے تھے تو میں این سی اے کے طلبہ و طالبات میں بھگت سنگھ تلاش کررہا تھا جو تقسیم ہند سے قبل اس درس گاہ کا طالب علم تھا۔
مجھے ان طلبہ وطالبات کے روشن چہروں میں بھگت سنگھ تو نظر نہیں آیا لیکن مستقبل کےبہت سے نیر علی دادا، جمی انجینئر، علی ظفر، عائشہ عمر اور عمران عباس نظر آرہے تھے۔ پروفیسر ڈاکٹر مرتضیٰ جعفری استاد ہونے کے علاوہ بہت بڑے فنکار بھی ہیں۔ ان کی پینٹنگزکنگز کالج اسپتال لندن سے وزیر اعظم سیکرٹریٹ اسلام آباد کے درودیوار پر آویزاں ہیں۔ وہ پاکستان سے محبت کی خاطر یونیورسٹی آف ایسٹ لندن کی نوکری چھوڑ کر پاکستان آ گئے۔
این سی اے کے پرنسپل بننے کے بعد اس ادارے کو یونیورسٹی کا درجہ دلانے کے لئے کوشاں ہیں۔ قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے کیبنٹ 2017ءمیں این سی اے کو یونیورسٹی کا درجہ دینے کی سفارش کر چکی ہے اور ایک سال پہلے کیبنٹ ڈویژن بھی پاکستان کے سب سے پرانے آرٹ کالج کو یونیورسٹی بنانے کی منظوری دے چکا ہے لیکن معاملہ صرف ایک فائل پر دستخط نہ ہونے کی وجہ سے آگے نہیں بڑھ رہا۔ اس فائل پر وزیراعظم کو دستخط کرنا ہیں۔ ناں نواز شریف کو اس فائل پر دستخط کی فرصت ملی نہ شاہد خاقان عباسی کو یہ فائل دکھائی جاتی ہے۔
منتخب پارلیمنٹ ایک فیصلہ کر چکی لیکن غیر منتخب بیوروکریسی کی طاقت کے سامنے آج بھی پارلیمنٹ بے بس نظر آتی ہے لیکن اس کا مطلب یہ بالکل نہیں کہ پاکستان میں کچھ بھی اچھا نہیں ہو رہا۔ این سی اے کے شاکر علی آڈیٹوریم میں سینکڑوں طلبہ وطالبات کے سامنے میں نے اپنی گفتگو 2013ء کے پاکستان سے شروع کی اور انہیں یاد دلایا کہ پانچ سال پہلے پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی تھا۔ روزانہ خود کش حملے ہو رہے تھے پھر منتخب حکومت نے اپوزیشن کو اعتماد میں لیا اور فوج کے ساتھ مل کر کراچی اور شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع کئے۔
دہشت گردی آج بھی ہوتی ہے لیکن دہشت گردی کے واقعات کم ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان میں سیاسی جلسوں کی بہار نظر آتی ہے۔ ادبی میلوں اور بک فیئرز کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ پچھلے سال پاکستان سپر لیگ کا فائنل لاہور میں ہوا، اس سال سیمی فائنل لاہور میں اور فائنل کراچی میں ہوگا۔ میں نے اس امید کا اظہار کیا کہ دو سال بعد پوری کی پوری پی ایس ایل پاکستان میں ہو گی جس پر شاکر علی آڈیٹوریم تالیوں سے گونج اٹھا۔
این سی اے کے طلبہ و طالبات نے مجھ سے بہت سوال پوچھے اور یہ سوالات بتا رہے تھے کہ پانچ سال بعد 2023ء کے پاکستان کی باگ ڈور پہلے سے بہتر نسل کے ہاتھ میں ہوگی۔ حیران کن طور پر سب سے زیادہ سوالات چین پاکستان اقتصادی راہداری کے بارے میں پوچھے گئے جس کا مطلب یہ تھا کہ نئی نسل حکومت کے بہت سے دعوؤں پر آنکھیں بند کرکے یقین کرنےکو تیار نہیں اور وہ چاہتی ہے کہ چین کے ساتھ مل کر اقتصادی راہداری ضرور بنائیں لیکن گوادر کے مچھیروں کو صاف پانی اور تعلیم بھی ملنی چاہئے ۔
ایک طالب علم نے پوچھا کہ آپ آئندہ الیکشن میں کس کو ووٹ دینگے؟میں نے جواب دیا کہ تین بڑی پارٹیوں میں زیادہ فرق نہیں رہا تینوں پر ایک ہی طبقے اور ایک ہی سوچ کا غلبہ ہے لہٰذا میں کسی ایسے امیدوار کو ووٹ دوں گا جو سب سے زیادہ پڑھا لکھا اور سب سے کم امیر ہو گا۔ آئندہ الیکشن میں کوئی بھی جیتے لیکن یہ الیکشن ملتوی نہیں ہونا چاہئے کیونکہ 2018ءمیں ایک اور جنرل الیکشن پاکستان کو آگے لے کر جائے گا اور 2023ء کا الیکشن بھی وقت پر ہو گیا تو پھر پاکستان کی جمہوریت مزید پختہ ہو جائے گی۔
آج کی جمہوریت میں ہارس ٹریڈنگ بھی ہے اور کرپشن بھی ہے لیکن کسی جمہوریت میں تین مہینے کے دھرنے سے تبدیلی نہیں آتی بلکہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے تبدیلی آتی ہے۔ 2013ء میں نیب صرف سیاستدانوں کے خلاف انکوائریاں کررہی تھی، 2018ء کی نیب ریٹائرڈ فوجی افسروں کی انکوائریاں بھی کر رہی ہے۔
پرویز مشرف کے خلاف آئین سے غداری کا مقدمہ دوبارہ شروع ہو چکا ہے اور پاکستانی عدالتوں کو دکھانا ہے کہ وہ صرف سیاستدانوں کے خلاف نہیں بلکہ سابق ڈکٹیٹروں کے خلاف فیصلے کرنے کی جرأت بھی رکھتی ہیں۔
ایک طلبہ نے پوچھا کہ جمہوریت کے خلاف سازشوں کو کیسے روکا جائے؟میرا جواب تھا کہ سب سے پہلے سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت کو مضبوط کیا جائے اور مخالفین کے خلاف بدزبانی کے بجائے دلیل سے بات کی جائے۔’’میڈیا گینگ وار‘‘ پر بھی بات ہوئی۔ کچھ طلبہ و طالبات کا خیال تھا کہ مختلف ٹی وی چینلز مختلف سیاسی جماعتوں اور گروہوں کے ترجمان بن چکے ہیں، ٹی وی اسکرینوں پر سیاستدان ایسی زبان استعمال کرتے ہیں جو گینگ وار کے دوران ’’ڈان‘‘ لوگ ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرتے ہیں ۔
اس شکایت کا سادہ سا جواب یہ تھا کہ آپکے ہاتھ میں ایک ریموٹ کنٹرول ہوتا ہے اگر آپ کو ایک چینل اچھا نہیں لگتا تو آپ کوئی دوسرا چینل لگا لیں لیکن کسی چینل کو غائب کر دینا مسئلے کا حل نہیں ہے۔ میں نے کوشش کی کہ نئی نسل کو جھوٹی امیدیں اور تسلیاں نہ دوں اس لئے آخر میں ان سے گزارش کی کہ اگر وہ 2023ء کے پاکستان کو پہلے سے اچھا دیکھنا چاہتے ہیں تو اپنے اردگرد کسی تبدیلی کا انتظار نہ کریں بلکہ اپنے اندر تبدیلی لے آئیں ان کے اندر تبدیلی آ گئی تو باہر بھی تبدیلی آ جائے گی۔
این سی اے میں لیکچر کے فوراً بعد مجھے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں راوینز لٹریری فیسٹیول میں پہنچنا تھا ۔ یہاں اصغر ندیم سید نے ہمارا استقبال کیا اور افتتاحی سیشن میں ایک دفعہ پھر این سی اے کے اساتذہ کے جھرمٹ میں بٹھا دیا۔ یہ سیشن لاہور شہر کے بارے میں تھا جس میں نامور آرکیٹیکٹ کامل خان ممتاز، نیر علی دادا اور فقیر سید اعجاز الدین کے ساتھ مل کر ہم نے لاہور کی ثقافتی میراث کی تباہی پر خوب آہ و بکاکی ۔ اس سیشن کے میزبان فیصل سجاد تھے جنہوں نے تاک تاک کر ایسے سوالات پوچھے کہ جواب میں نامور آرکیٹکٹ کامل خان ممتاز کو یہ کہنا پڑا کہ شہر کی اصل روح ختم ہو چکی اور ترقیاتی منصوبوں کے نام پر جو اکھاڑ پچھاڑ ہوئی ہے اس کے بعد وہ لاہور ختم ہو چکا جو کبھی پاکستان کا دل کہلاتا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ہم سب لاہور شہر کی وفات پر افسوس کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں ۔ یہ افسوس ایک ایسے شہر میں ہو رہا تھا جسے نواز شریف کا لاڑکانہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ افسوس ایک ایسی درسگاہ میں ہو رہا تھا جسے نواز شریف کا لاڑکانہ سمجھا جاتا ہے۔
یہ افسوس ایک ایسی درسگاہ میں ہو رہا تھا جہاں نواز شریف اور شہباز شریف نے بھی تعلیم حاصل کی۔ ان دونوں بھائیوں نے لاہور میں بہت سے ترقیاتی کام کئے ہیں اور شہر کی شکل بدل دی ہے لیکن کھیل کے میدان ختم ہونے اور تاریخی عمارتوں کا حلیہ بگڑنے کے باعث شہر کے اہل فکر و دانش کی تشویش راوینز لٹریری فیسٹیول میں عیاں تھی۔
آخر میں اس ناچیز نے گزارش کی کہ آج یہاں جو باتیں ہوئی ہیں انہیں اس ادبی میلے سے باہر لے جایا جائے اور کوشش کی جائے کہ شہر کے لوگوں کو ساتھ ملا کر شہر کی روح کو بحال کیا جائے۔ ترقی ایسی ہونی چاہئے جو شہر میں امن و سکون لائے۔ جو ترقی امن و سکون کے بجائے لوگوں کو بے چین کر دے وہ عوام دوست نہیں عوام دشمن ترقی کہلاتی ہے۔ شہباز شریف پرانے لاہور کو ختم کئے بغیر نیا پاکستان ڈھونڈنے میں کامیاب ہو جائیں تو 2023ء بھی ان کا ہے ورنہ 2023کسی اور کا ہو گا۔
سینئر صحافی حامد میر کا کالم 19 مارچ 2018 کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوا
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔