Time 21 مارچ ، 2018
بلاگ

نئی ایم کیو ایم، کیوں اور کیسے؟

فائل فوٹو—.

’’آرمی پبلک اسکول جیسی کارروائیوں کی وجہ سے طالبان کے بارے میں عوامی غیظ وغضب بھی بڑھ گیا۔ جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور جے یو آئی جیسی جماعتیں بھی کھل کر طالبان کے خلاف بولنے پر مجبور اور  اے این پی، ایم کیو ایم یا پی پی پی جیسی جماعتوں کی ہمنوا بن گئی ہیں۔

سب سے بڑھ کر یہ کہ شمالی وزیرستان کی صورت میں انہیں جو ٹھکانہ میسر تھا، اس پر فوج نے آپریشن کے ذریعے قبضہ کرلیا۔ اعدادوشمار کو بنیاد بنایا جائے تو بھی دہشت گردی کی کارروائیوں میں نمایاں کمی آئی اور ان حوالوں سے دیکھا جائے تو پوری قوم کو وزیراعظم اور ان کے طبلچیوں کی طرح مطمئن ہوجانا چاہیے لیکن ان کے برعکس میرا اضطراب بڑھ رہا ہے۔

مجھے اپنے فوجیوں، اپنے پولیس اہلکاروں اور اپنے جوانوں کی قربانیاں وہ نتائج لاتی نظر نہیں آرہی ہیں جن کا خواب دیکھ کر انہوں نے قربانیاں دیں، مجھے پورے پاکستان اور بالخصوص پختون پٹی میں ایک نئی اور خطرناک قسم کی طالبانائزیشن فروغ پاتی نظر آرہی ہے۔ نام شاید ان کے طالبان نہ ہوں لیکن کا م وہ طالبان جیسے بلکہ ان سے زیادہ خطرناک کریں گے۔ شاید ان کی داڑھیاں نہ ہوں لیکن وہ موجودہ طالبان کے مقابلے میں زیادہ شدت کے ساتھ ریاست سے ٹکرائیں گے۔ وہ موجودہ طالبان کے مقابلے میں جدید آلات اور جدید وسائل کا زیادہ مہارت کے ساتھ استعمال کریں گے اور وہ ریاستی اداروں کے اندر، ان سے زیادہ اثرورسوخ کے حامل ہوں گے۔

ان طالبان کا تشدد کسی مذہب، کسی قاعدے اور کسی روایات کا پابند بھی نہیں ہوگا اور اس طالبانائزیشن میں انتقام اور نفرت کا عنصر بھی زیادہ ہوگا۔ ان طالبان کی صفوں میں یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر بھی ہوں گے، پروفیسر اور اساتذہ بھی، بڑے بڑے دانشور، شاعر اور ادیب بھی ہوں گے، پڑھے لکھے تعلیم یافتہ نوجوان بھی ہوں گے، علماء بھی اور بڑے بڑے قبائلی عمائدین بھی ہوں گے۔موجودہ طالبان کی طرح وہ طالبان اپنے گھروں سے باغی نہیں ہوں گے بلکہ ماؤں بہنوں کی دعائیں ان کے ساتھ ہوں گی اور ان کی خواتین ان کی شانہ بشانہ ہوں گی۔ 

افسوس تو یہ ہے کہ میاں نواز شریف اور عمران خان مل کر یہ نئے قسم کے طالبان تیار کررہے ہیں اور دیگر رہنما ان کی معاونت کر رہے ہیں یا پھر تماشائی ہیں جبکہ میڈیا کو چونکہ ریٹنگ کے ڈراموں سے فرصت نہیں، اس لیے وہ نئی طالبانائزیشن کی طرف توجہ دے رہا ہے اور نہ باقی ماندہ پاکستان کو اس خطرے سے آگاہ کررہا ہے۔ 

ان علاقوں سے ذہانتیں ہجرت کر گئی ہیں، سرمایہ دار، بیرون ملک یا پھر باقی پاکستان فرار ہوچکا ہے، ادب و ثقافت کا جنازہ نکل گیا ہے۔ یہاں کی شاعری، ادب اور حتیٰ کہ موسیقی بھی جنگ، بندوق، بم اور محرومیوں کے تذکرے سے بھرگئی ہے۔ بچے اب آنکھ مچولی کے کھیل کی بجائے، خودکش خودکش کا کھیل کھیلتے ہیں۔ ہم نے سنا تھا کہ ریاست ماں جیسی ہوتی ہے لیکن ان علاقوں میں ریاست سوتیلے باپ کی صورت اختیار کرگئی ہے‘‘۔

یہ میرے اُس کالم کے الفاظ تھے جو 6 فروری 2016ء کو روزنامہ جنگ میں ’’نئے طالبان‘‘ کے زیرعنوان شائع ہوا۔

زیر نظر کالم آج سے دو سال قبل اُس وقت سپرد قلم کیا گیا، جب شمالی وزیرستان آپریشن کے بعد قبائلی علاقوں پر سیکورٹی فورسز کا مکمل کنٹرول قائم ہوا ۔ دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئی۔ ہر طرف ’’شکریہ راحیل شریف‘‘ کا نعرہ گونجنے لگا اور یہ تاثر دیا جارہا تھا کہ پختون پٹی میں ریاست کے خلاف اٹھنے والی آوازیں ہمیشہ کے لئے دب گئیں۔ 

تب دوسروں کی طرح جشن منانے کی بجائے میں قبائلی علاقوں میں سیاسی اصلاحات کی التجائیں کرکے آئی ڈی پیز کی واپسی اور تعمیر نو پر توجہ کی دہائی دیتے ہوئے عرض کرتا رہا کہ اگر یہ اقدامات نہ کیے گئے تو ریاست کو چیلنج کرنے والی قوتیں ایک نئی شکل میں ظاہر ہوں گی۔ میں التجائیں کرتا رہا کہ قبائلی علاقہ جات اور سوات سے جلد از جلد فوج کی واپسی کا انتظام کرکے معاملات سول انتظامیہ کے سپرد کیے جائیں تاکہ روزمرہ کے اختلاط کی وجہ سے فوج اور عوام کے درمیان فاصلے جنم نہ لیں۔ 

اسی سوچ کے تحت سی پیک کے مغربی روٹ کے لیے جنگ لڑی اور اسی فکر میں قبائلی علاقوں کے پختونخوا کے ساتھ انضمام کے لیے کوششیں کرتا رہا۔ نجی ملاقاتوں میں بولتے بولتے تھک گیا اور کوئی نتیجہ نہ نکلا تو ٹی وی پروگراموں میں بولنے لگا اور مذکورہ کالم جیسے کالم تحریر کیے لیکن ہم جیسے مزدوروں کی کون سنتا ہے؟

فاتح اپنی فتح کا جشن مناتے رہے اور سیاسی رہنما اپنی سیاست میں مگن رہے ۔الٹا مجھ پر مایوسی پھیلانے کا الزام لگایا گیا۔ آج صرف دو سال میں پختون پٹی میں پختون تحفظ موومنٹ کے نام سے ریاست کے لیے ایک نیا چیلنج کھڑا ہوگیا ہے اور اس کے اسٹیج سے سیکیورٹی اداروں کے خلاف نعروں کے ساتھ ساتھ بعض لوگ آزادی کی بھی دھمکیاں دینے لگے ہیں تو شاید کچھ لوگوں کو سمجھ آگیا ہو کہ کیا ہونے جارہا ہے ۔

طالبان کے برعکس پختون تحفظ موومنٹ کو مین اسٹریم میڈیا اور کئی سیاسی جماعتوں بالخصوص قوم پرست جماعتوں کی سپورٹ بھی حاصل ہے ۔کیونکہ مسائل کے حل کا جو راستہ اس تحریک نے چنا ہے یا پھر اسے جس راستے پر گامزن کیا جارہا ہے، اس سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن جن مسائل کی بنیاد پر یہ تحریک شروع کی گئی ہے ان سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا ۔بدقسمتی سے ابھی تک ریاست کی طرف سے اس تحریک کو نہایت غلط انداز میں ڈیل کیا گیا اور اگر اسے اسی غلط طریقے سے ڈیل کیا جاتا رہا تو خدشہ ہے کہ نہ صرف تمام قربانیاں رائیگاں جائیں گی بلکہ پختون پٹی میں ایک ایسی نئی آگ بھڑک اٹھے گی جو نہ صرف ریاست پاکستان کے لیے وبال جان ہوگی بلکہ بیچارے پختونوں کو بھی آگ و خون کے ایک نئے دریا کا سامنا ہوگا۔

بدقسمتی سے مجھے ان دنوں کراچی اور سندھ سے متعلق اس وقت ریاستی اداروں، سیاستدانوں اور میڈیا کا رویہ بعینہ اسی طرح نظر آتا ہے جس طرح کہ فاٹا اور پختون پٹی سے متعلق اپنا گیا۔ الحمدللہ کراچی میں فوج اور رینجرز نے بڑی حد تک امن بحال کردیا ہے ۔ بانی متحدہ خود مکافات عمل کا شکار ہوگئے اور میڈیا پر ان کی شکل تک دکھانا ممنوع قرار پایا ہے۔ ایم کیو ایم دو دھڑوں میں بٹ چکی ہے اور مصطفیٰ کمال نے رسک لے کر جو پہلا پتھر پھینکا تھا، اس کا ارتعاش اس قدر بڑھ گیا ہے کہ اب متحدہ قائد کے اچھے بھلے چہیتے بھی دن رات ان کو للکار رہے ہیں۔ 

الحمدللہ تجارتی، ثقافتی اور صحافتی سرگرمیاں بھی معمول کی طرف آرہی ہیں اور اللہ نے ہمیں یہ دن دیکھنا بھی نصیب کیا کہ کراچی میں پی ایس ایل کا فائنل منعقد ہونے جا رہا ہے لیکن بدقسمتی سے ہم جشن منانے میں ایسے مصروف ہوگئے ہیں کہ سندھ اور بالخصوص کراچی کے دیرینہ مسائل کی طرف کوئی توجہ مبذول نہیں کررہے ہیں۔

سندھ کے مسائل اور اردو بولنے والوں کی محرومیاں جوں کی توں ہیں۔ وقتی مصلحت کی خاطر سیاسی مینجمنٹ تو کی جارہی ہے لیکن دائمی مسائل کا دائمی سیاسی حل نہیں نکالا جارہا ۔ میرے نزدیک اس حل کی طرف پہلا قدم اردو بولنے والوں کے لیے عام معافی ہوسکتی ہے جس کا مطالبہ مصطفیٰ کمال تکرار کے ساتھ کر رہے ہیں۔جو پالیسی بلوچ عسکریت پسندوں سے متعلق ہے یا پھر جو راستہ مذہبی عسکریت پسندوں کو دیا جارہا ہے، وہ پالیسی مہاجر نوجوانوں سے متعلق بھی اپنانی چاہیے کیونکہ ان کے جرم کی دنیا میں داخل ہونے کا ذمہ دار جہاں متحدہ قائد ہے وہاں ریاست بھی ہے، اس لیے غصہ نکالنے اور انتقام لینے کی بجائے ریاست کو ماں بن کر ان لوگوں کو ایک راستہ دے دینا چاہیے جو حالات کے جبر کا شکار ہوکر ایم کیو ایم یا جرم کی دنیا کی طرف گئے تھے۔

ان میں سے جو لوگ تائب ہو کر پرامن زندگی کی طرف لوٹنا چاہتے ہیں، ان کو ایک موقع ضرور دینا چاہیے۔ اسی طرح یہ کوشش ہونی چاہیے کہ جلد از جلد فوج اور رینجرز کو سیاسی معاملات سے الگ کرکے پولیسنگ کی ڈیوٹی پولیس کے سپرد کی جاسکے اور ظاہر ہے اس کے لیے پولیس اصلاحات ضروری ہیں۔

اسی طرح صرف ایم کیوایم کی تقسیم کو حل سمجھنے کی بجائے سندھ اور بالخصوص کراچی کے مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے، نہیں تو ماضی کا تاریک دور کسی بھی وقت دوبارہ لوٹ سکتا ہے۔ یقیناً بانی متحدہ کی واپسی کا اب کوئی راستہ نہیں۔بے شک ایم کیو ایم دوبارہ کبھی بھی وہ جماعت نہیں بن سکتی جو کسی زمانے میں تھی، یقیناََ اب ایم کیو ایم کا مستقبل تاریک اور پی ایس پی جیسی جماعتوں کا مستقبل روشن ہے لیکن اگر مسائل کا سیاسی حل نہ نکالا گیا اور اگر کراچی کے عوام کی عزت نفس بحال کرکے انہیں اپنے فیصلوں کا مختار نہ بنایا گیا تو خاکم بدہن ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے والی قوتیں نئی شکل میں سر اٹھاسکتی ہیں۔ ان لوگوں کو کوئی اور بانی متحدہ جیسا مل جائے گا اور ایم کیو ایم جیسی تنظیم ایک نئے نام کے ساتھ نئی شکل میں سامنے آجائے گی جو شاید پہلے والی ایم کیو ایم سے زیادہ خطرناک ہوگی۔


یہ تحریر 21 مارچ 2018 کے جنگ اخبار میں شائع ہوئی


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔