بلاگ
Time 22 مارچ ، 2018

لو وہ پھر آ رہے ہیں

سابق صدر پرویز مشرف کی اقتدار سے رخصتی کو دس سال ہونے والے ہیں۔ ان دس سالوں میں وہ پاکستانی فوج کے لئے دردِ سر بنے رہے اور اب وہ پاکستان کی عدلیہ کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج بن چکے ہیں۔ انہیں عدالتوں سے سزا مل گئی تو نواز شریف کے سیاسی بیانیے کی عمارت دھڑام سے زمین پر آرہے گی اور اگر انہیں سزا نہ ملی تو پھر نوازشریف کی سیاسی طاقت میں اتنا اضافہ ہوجائے گا کہ تمام دوسرے سیاستدان ان کے سامنے بونے بن جائیں گے۔ 

پرویز مشرف سے میرا پہلا تعارف 1998میں حمید اصغر قدوائی کے ذریعے ہوا۔ اس زمانے میں مشرف صاحب کورکمانڈر منگلا تھے۔ قدوائی صاحب نواز شریف کے انتہائی قریبی دوستوں میں شمار ہوتے تھے اور وزیراعظم ہاؤس میں رہائش پذیر تھے۔ وہ پرویز مشرف کو آرمی چیف بنوانے کے لئے لابنگ میں مصروف تھے۔ میں آج بھی قدوائی صاحب کو یاد دلاتا ہوں کہ انہوں نےمجھے پرویز مشرف کے بارے میں کہا تھا کہ اگر انہیں آرمی چیف بنا دیا گیا تو وہ کبھی مارشل لا نہیں لگائیں گے۔ 

دوسری طرف آئی ایس آئی نے پرویز مشرف کو آرمی چیف کے عہدے کے لئے انتہائی ناموزوں شخص قراردیا لیکن جب جہانگیر کرامت نے وزیراعظم نوازشریف کی سویلین اتھارٹی کے سامنے سرنڈر کرتے ہوئے آرمی چیف کے عہدے سے استعفیٰ دیا تو حمید اصغر قدوائی جیت گئے اور آئی ایس آئی ہارگئی۔ 

آرمی چیف بننے کے کچھ عرصے بعد مشرف صاحب نے میرے سمیت کچھ دیگرصحافیوں کوایک افطار ڈنر پر بلایا۔ یہاں انہوں نے صرف تین دن میں کشمیر کی آزادی کا منصوبہ پیش کیا اور مجھے چند لمحوں کے لئے کشمیر کی آزادی بہت قریب دکھائی دینے لگی لیکن جب مشرف صاحب نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو وزیر خارجہ ہونا چاہئے تو مجھے یقین ہو گیا کہ حمید اصغر قدوائی کے ساتھ دھوکا ہوا ہے۔ 

کچھ ہی عرصے میں کارگل کا بحران شروع ہوگیا اور پھر ایک دن جنرل پرویز مشرف نے شہباز شریف کو بتایاکہ میرے کور کمانڈرزکا خیال ہے آپ وزیراعظم بن جائیں تو سب ٹھیک ہوجائےگا۔ شہبازشریف کوکہا گیا کہ اگرآپ ایوان کے اندر تبدیلی پر راضی ہوجائیں تو نہ مارشل لا لگے گا نہ اسمبلیاں ٹوٹیں گی لیکن شہبازشریف نے کہا کہ وہ دومغل شہزادوں اورنگزیب اور داراشکوہ میں لڑائی کی کہانی دوبارہ نہیں دہرائیں گے۔ 

12 اکتوبر 1999 کی فوجی بغاوت کے بعد کئی دن تک اسمبلیاں نہ توڑی گئیں اور شہباز شریف کو’’راہ ِ راست‘‘ پر لانے کی کوشش کی گئی لیکن چوہدری نثار علی خان، جاوید ہاشمی، خواجہ آصف اور تہمینہ دولتانہ سمیت کئی مسلم لیگیوں نے اس ’’آپریشن راہ ِ راست‘‘ کا حصہ بننے سے انکار کردیا اور آخر کاراسمبلیاں توڑ دی گئیں۔

ہمیں یہ تسلیم کرناہوگا کہ 12اکتوبر 1999کی فوجی بغاوت اکیلے پرویز مشرف کا فیصلہ نہیں تھا۔ نوازشریف نےاپنی دوتہائی اکثریت کے بل بوتے پر پہلے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو زیر کیا، پھر صدر فاروق لغاری کو نکالا اور پھر میڈیا کی آزادی پر حملہ کردیا۔ آخر میں پاکستان آرمی کو پنجاب پولیس بنانے کی کوشش ہوئی تو فوجی بغاوت ہوگئی۔ 

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے اس فوجی بغاوت کاخیر مقدم کیا تھا کیونکہ عدلیہ سے میڈیا تک او رمیڈیا سے فوج تک، سب کے سب نواز شریف کی سویلین اتھارٹی کے زخموں سے چور چور تھے۔ اس وقت جو نواز شریف کر رہے تھے وہ غلط تھا لیکن پھر جو مشرف نے کیا وہ بھی غلط تھا۔ اگر پرویز مشرف فوری طور پر نئے انتخابات کرواکر اقتدار سیاستدانوں کے حوالے کردیتے تو نواز شریف جیل میں پڑے رہتے اور کوئی تحریک نہ چلتی لیکن وہ اقتدار پرقبضے کا مزا لینے لگے۔ 

جن دنوں طیارہ ہائی جیکنگ کیس میں نواز شریف کو پھانسی دینے کامطالبہ کیاجارہا تھا، میں نے ایک کالم لکھا، جس کا عنوان تھا ’’پھانسی بہت ضروری ہے‘‘ اس کالم میں مشرف صاحب سے کہا گیا تھاکہ نواز شریف کو پھانسی نہیں دینی چاہئے اگرپھانسی دینی ہےتو اس نظام کو دیں جو نواز شریف پیدا کرتا ہے۔ اگر نوازشریف کو پھانسی لگ گئی تو اصغر خان کیس اور لندن کے پارک لین فلیٹس سمیت معاملات کی انکوائری کیسے ہوگی؟ مشرف صاحب اردو نہیں پڑھ سکتے تھے۔ انہیں میرے کالم کی انگریزی سمری دی گئی تو انہوں نے مجھے بلایا اور کہا کہ تم اصغرخان کیس کوبھول نہیں سکتے؟ میں نے جواب میں کہا کہ اگر اصغر خان کیس کافیصلہ نہ ہواتویہ نظام کسی نئے نوازشریف کو پیدا کردے گا۔ 

لیکن مشرف صاحب نے میرا یہ فلمی ڈائیلاگ بڑی شاہانہ رعونت کے ساتھ اپنے سگار کےدھوئیں میں گم کردیا۔ محترمہ بینظیر بھٹو پہلے ہی جلاوطن تھیں اور نوازشریف کو سعودی عرب بھیج کر پرویز مشرف پاکستان میں سیاہ و سفید کے مالک بن گئے۔

جس ادارے کی مدد سے وہ اقتدار میں آئے تھے انہوں نے اس ادارے کو بائی پاس کرکے براہ راست امریکہ کے ساتھ معاملات طے کرنا شروع کردیئے۔ انہوں نے کور کمانڈرز کو بتائے بغیر جیکب آباد ایئربیس امریکہ کے حوالے کیا تو فوج کو احساس ہوا کہ مشرف خود ’’راہ ِراست‘‘ سے ہٹ گئے ہیں۔ پھرانہوں نے عراق کی جنگ میں فوج کو جھونکنے کی کوشش کی تو ان کے ساتھیوں کی طرف سے مزاحمت ہوئی۔ وہ اسرائیل کو تسلیم کرنا چاہتے تھے لیکن فوجی قیادت نہیں مانی۔ 

انہوں نے بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کے ساتھ مل کر مسئلہ کشمیر کا ایک ایسا حل تلاش کیا جو مذاکرات کی میز پر کشمیریوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کے مترادف تھا۔ مشرف صاحب کی کنٹرولڈ ڈیموکریسی میں نواب اکبر بگٹی کا قتل ایک ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ بگٹی صاحب کےساتھ جوکچھ ہوا اس سے پاکستان کو بہت نقصان ہوا۔ لال مسجد میں آپریشن کےنام پر جو ’’ڈرامہ‘‘ ہوااس کےبعد ملک بھرمیں خودکش حملے ہونے لگے۔ 

12مئی 2007کو کراچی میں ایم کیوایم کے ذریعے جو قتل عام ہوا اس کے بعد مشرف ایک انتہائی متنازع شخصیت بن گئے اور ان کی وجہ سے پاکستان آرمی کی ساکھ کوشدید نقصان پہنچا۔ سول ملٹری تعلقات میں جو بگاڑ مشرف نے پیدا کیا وہ اور کسی دوسرے نے پیدا نہیں کیا اور جب ان پر دباؤ بڑھا تو پیپلزپارٹی کے ساتھ ایک این آر او کرلیا جس کی بدنامی فوج کے کھاتے میں پڑی۔ پھر اسی این آر او سے فرار کے لئے 3نومبر 2007کو دوبارہ آئین معطل کردیا۔ 

مشرف کی اصل طاقت فوج کی وردی تھی۔ یہ وردی اتری تو وہ ایک لنگڑی بطخ بن گئے جسے آصف زرداری اور نواز شریف مل کر مواخذے کے پنجرے میں بند کرناچاہتے تھے۔ مشرف کو مواخذے سے بچانے کے لئے جنرل اشفاق پرویز کیانی نے صدارت سے ان کے استعفے کا محفوظ راستہ تلاش کیا۔ مشرف ایوان ِ صدر میں اپنے ہی حکم سے گارڈ آف آنر لے کربیرون ملک چلے گئے لیکن 2013کے الیکشن سے پہلے پھر واپس آگئے اورایک نئے کارگل میں پھنس گئے۔ اس کارگل سے انہیں نکالنے کے لئے جنرل راحیل شریف کوکئی پاپڑ بیلنے پڑے۔ آئین سے غداری کےمقدمے سے بچانے کے لئے کبھی انہیں اے ایف آئی سی میں چھپانا پڑا ،کبھی نواز شریف کو مارشل لا سے ڈرانا پڑا اور آخرکار نواز شریف نے انہیں پاکستان سے بھگا دیااور سارا الزام عدالتوں پر ڈال دیا۔

مشرف صاحب بیرون ملک خاموش بیٹھے رہتے تو شاید لوگ انہیں بھول جاتے لیکن وہ ٹی وی انٹرویوز میں راحیل شریف کی مدت ِملازمت میں توسیع کے مطالبے کرنے لگے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ راحیل شریف نے عدالتوں پر اثرانداز ہو کر انہیں پاکستان سے نکلوایا۔ ایک اور انٹرویو میں انہوں نے حافظ سعید کو پاکستان کا اثاثہ قرار دے ڈالا۔ انہوں نے پہلے بھی فوج کے پیچھے چھپ کر سیاست کی تھی اور وہ آئندہ بھی یہی کریں گے۔ 

مسلم لیگ(ن) کی حکومت ان کے ساتھ سخت رویہ اختیار نہیں کرے گی اور نہ انہیں سزا دلوانے کی کوشش کرےگی کیونکہ مسلم لیگ (ن) کا فائدہ اسی میں ہے کہ مشرف کو کلین چٹ مل جائے۔اگر مشرف کو کلین چٹ مل گئی تو موصوف کو بھگوڑا قرار دینے والا ہمارا بلاول بھائی جھکی جھکی نظروں کے ساتھ انکل نواز شریف کے پیچھے چلنے پرمجبور ہوجائے گااور اپنے خان صاحب کی تو داستان بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔ مشرف کا پاکستان آنا واقعی بہت ضروری ہوچکا ہے تاکہ ہمیں پتہ چلے کہ پاکستان بدلا ہےیا نہیں؟ پاکستان کی عدالتیں صرف سیاستدانوں کو سزائیں دیتی ہیں یا سابق فوجی ڈکٹیٹر کو بھی ’’سزا‘‘ دے سکتی ہیں؟

سینئر صحافی حامد میر کا یہ کالم 22 مارچ 2018 کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوا


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔