23 مارچ ، 2018
آمروں نے ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے، پاکستان میں تین دہائیوں سے زیادہ عرصے پر محیط آمرانہ طرز حکومت کے باعث ملک تقسیم ہوگیا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کا دور ملکی تاریخ کا سیاہ ترین رہا۔ ان آمروں نے ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور آمرانہ سوچ نے جمہوری حکومتوں کو چلنے نہیں دیا۔ یہ سب سچ، سب درست اور سب تاریخی حقیقت!
آمرانہ سوچ، آمرانہ طرز حکومت، آمرانہ فکر، آمر آمر آمر ۔۔۔ آمر کیا ہوتا ہے؟ آمر کیوں ہوتا ہے؟ آمر حکومت پر کس طرح قبضہ کر لیتا ہے؟ آمر حکومت کس طرح ختم کرتا ہے؟ آمرانہ سوچ یا طرز حکومت کیا ہوتی ہے؟ جتنا سوچتا گیا میرا ذہن اتنا ہی الجھتا گیا۔
پھر میں نے اس گتھی کو سلجھانے کی کوشش کی۔ سیاست دانوں سے بات کی، تجزیہ کاروں کی رائے لی اور آمریت اور جمہوریت کے فرق کو سادہ الفاظ میں بیان کرنے کی درخواست کی۔
ان کی بات کا خلاصہ یہ ہے کہ آمریت عوام کے منتخب نمائندوں کا تختہ الٹ کر حکومت پر قابض ہونے کا نام ہے۔ آمر، آئین معطل کرکے عوام کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کر دیتا ہے۔ آمر ہر فیصلہ خود کرتا ہے، کسی سے مشورہ نہیں لیتا اور اپنی رائے مسلط کر دیتا ہے۔ آمر کو جمہور کا نمائندہ نہیں کہا جا سکتا۔ آمر اپنی کابینہ کے وزراء، مشیران اور دیگر کو اپنی مرضی سے لگاتا ہے جس سے کوئی اختلاف نہیں کر سکتا۔ آمرانہ طرز حکومت جمہوریت سے متصادم ہوتی ہے۔ آمریت اور جمہوریت ایک دوسرے کے مخالف نظام حکومت ہوتے ہیں۔
اس جستجو کے نتیجے میں، میں نے جانا کہ آمر کسی سے مشورہ نہیں کرتا اور صرف اپنی چلاتا ہے، وہ آئین معطل کرکے بنیادی حقوق سلب کرتا ہے، وہ بادشاہ ہوتا ہے اور عوام اس کی رعایا، ملک پر حکومت کے لیے اسے عوام کی حمایت حاصل نہیں ہوتی، اس کی حکومت کا ساتھ دینے والے آئین پاکستان سے غداری کے مرتکب ہوتے ہیں۔
یہ سب سن کر جمہوریت پر میرا اعتماد اور یقین مزید بڑھ گیا اور میں نے کہا کہ 'جو آمر کا یار ہے، وہ ملک کا غدار ہے'۔
میرے لیے جمہوریت کی باتیں کرنے والے سیاست دان نہایت محترم ہوگئے اور میں نے سلام کرنا چاہا ان سیاستدانوں کو جنہوں نے کبھی آمروں کا ساتھ نہ دیا ہو اور ان کے دور حکومت میں ان کے خلاف آواز بلند کی ہو۔
میں نے سلام کرنا چاہا ان تمام سیاسی جماعتوں کو جن میں جمہوریت پھل پھول رہی ہو اور ان میں عوامی مسائل کے حل کی باتیں سیاسی نعرہ نہیں بلکہ حقیقی جدوجہد کا نام ہو۔
میں نے سلام کرنا چاہا ان تمام سیاسی جماعتوں کو جن میں باقاعدگی سے انتخابات ہوتے ہوں اور ان کے مالی معاملات شفاف ہیں۔
میں نے سلام کرنا چاہا ان تمام سیاستدانوں کو جو ملکی خزانہ عوام کی امانت اور اس میں خیانت کرنا جرم سمجھتے ہوں۔
میں نے سلام کرنا چاہا جمہوریت کے علم برداروں کو جو عوام کے استحقاق کو سب سے مقدم جاننتے ہوں۔
میں نے سلام کرنا چاہا ان تمام ارکان پارلیمان کو جنہوں نے عوام کی بہتری اور بنیادی ضروریات کی بلا تعطل فراہمی کے لیے قانون سازی کی ہو۔
میں نے سلام کرنا چاہا ان سیاسی رہنماؤں کو جنہوں نے عوام کی بنیادی ضروریات کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والوں کے خلاف قانون سازی کی ہو۔
میں نے سلام کرنا چاہا ان سب کو جنہوں نے اپنی ذات پر عوام کی خدمت کو ترجیح دی ہو۔
میں نے سلام کرنا چاہا ان رہنماؤں کو جن کی زندگی میں جمہوریت کی قدر و منزلت اپنی ذات سے زیادہ اور عوام کی فلاح کے کام ان کی ترجیح ہو۔
میں نے سلام کرنا چاہا ان سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کو جنہوں نے عوام کو تعلیم، صحت، روزگار اور بہتر رہائش کی فراہمی کے لیے اقدامات کیے ہوں۔جن کے دور حکومت میں صحت، تعلیم، روزگار کی فراہمی وغیرہ کے لیے بجٹ میں مختص رقم کی شرح میں اضافہ کیا گیا ہو اور اس میں ہونے والی بد عنوانی روکنے کے اقدامات کیے گئے ہوں۔
میں نے اپنی عقیدت کے پھول نچھاور کرنا چاہے جمہوریت کے ان حقیقی پاسبانوں پر۔
ان خیالات اور احترام کے جذبے کے ساتھ جب میں نے سیاسی جماعتوں، ان کے رہنماؤں اور قائدین پر نگاہ دوڑائی تو مشکل میں پڑ گیا۔ ایسی سیاسی جماعت جس نے کبھی آمر کا ساتھ نہ دیا ہو، ایسا کوئی قائد جو آمر کے کندھے پر سوار ہو کر حکومت پر براجمان نہ ہوا ہو۔ایسے سیاستدان جن کے لیے عوام کا استحقاق سب سے مقدم ہو اور وہ اپنے آپ کو عوام کا جوابدہ اور خدمات گار سمجھتے ہوں۔
میں نے تلاش شروع کی ایسی کسی سیاسی جماعت کی جس نے اپنے دور حکومت میں تعلیم، صحت، روزگار اور بے گھر افراد کے لیے سر چھپانے کا مناسب بندوبست کرنے پر توجہ دی ہو۔ ایسی جماعت جس نے عوام کے بنیادی آئینی حقوق کی فراہمی یقینی بنانے پر زبانی جمع خرچ کے بجائے عملی اقدامات کیے ہوں ۔
عام انتخابات اور عوام کی رائے، آمریت اور جمہوریت کا سب سے بڑا فرق ہے۔ لہٰذا میں نے ڈھونڈنا شروع کیا ایسی سیاسی پارٹی کو جو عوام کے ووٹ کے تقدس کو سب سے زیادہ اہمیت دیتی ہو، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جب میں نے سیاسی جماعتوں میں انتخابات کا طریقہ کار جاننا چاہا تو ایک بار پھر شدید مایوسی ہوئی۔ جماعت اسلامی کے سوا مجھے کوئی سیاسی جماعت ایسی نہیں مل سکی جس میں عام انتخابات کے بعد قیادت میں تبدیلی آتی ہو۔ ہر جماعت جمہور سے نہیں بلکہ کسی نا کسی نام سے جڑی ملی، وہ خود یا ان کے خاندان کے افراد تاحیات قائد یا خود ساختہ تا حیات قائد بنے ملے۔
ایک سیاسی جماعت نے پارٹی کے اندر عام انتخابات کا انعقاد کیا لیکن بعد میں اس کے قائد نے انتخابات کے نتیجے کو مسترد کر دیا۔ پھر ظلم کی انتہا یہ ہوئی کہ قائد نے خود اپنے بنائے چیف الیکشن کمشنر ہی کو فارغ کرکے الیکشن کمیشن تحلیل کر دیا اور الیکشن کمشنر بھی وہ جو ایک معروف اور بے داغ کیریئر کا مالک ریٹائرڈ جج تھا۔ قائد نے جج صاحب کو اپنی جماعت میں انتخابات مقعد کروانے کی ذمہ داری دینے کے بعد ان ہی کے فیصلے کو رد کر دیا، لیکن دیگر جماعتوں نے تو یہ زحمت بھی نہیں کی۔
میں نے دیکھا کہ سیاسی جماعتوں میں قیادت منتخب کرنے کے لیے انتخابات کروانے کا طریقہ کار بھی عجیب ہے۔ ایک بند جگہ پر اپنے منظورِ نظر افراد کو مدعو کیا جاتا ہے، پھر ان سے قائد، پارٹی چیئرمین یا صدر کو منتخب کر والیا جاتا ہے۔ نہ ووٹ ڈالے جاتے ہیں اور نہ ہی کوئی پارٹی قائد کے خلاف الیکشن لڑنے کی ہمت کرتا ہے۔ پھر وہ قائد اپنی پسند کے رہنماؤں میں عہدے تقسیم کر دیتا ہے۔ وہی قائد تمام صوبوں میں صدور اور کابینہ کے ارکان بھی نامزد کر دیتا ہے۔ اس طریقہ کار کو جمہوریت کہا جاتا ہے اور اس کے نتائج الیکشن کمیشن میں جمع کروا کر خانہ پری ہو جاتی ہے۔
میں نے سیاسی جماعتوں کے مالی معاملات کی کسی پروفیشنل آڈیٹنگ فرم سے جانچ پڑتال کا پوچھا تو یہاں بھی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ کیسا آڈٹ اور کیسی رپورٹ، سب زبانی جمع خرچ، ایک رپورٹ بنا کر فائل کا پیٹ بھر دیا جاتا ہے۔
میں نے سیاسی جماعتوں کی جانب سے اپنے انتخابی منشور میں کیے جانے والے بلند و بانگ دعوے دیکھے اور خوش ہوا کہ سیاسی جماعت برسر اقتدار آکر عوام اور ملک کے وارے نیارے کر دے گی۔ میں نے برسر اقتدار آنے والی سیاسی جماعتوں کے منشور پر عمل درآمد کے متعلق معلوم کیا تو اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔
میری سمجھ میں یہ مصرع اچھی طرح آ گیا کہ 'وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا'۔
عوام کے لیے تعلیم، صحت، روزگار کی فراہمی اور سر چھپانے کی جگہ جیسے بنیادی حقوق کی فراہمی میں سیاسی جماعتوں کے کردار پر بھی مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملا۔ میں نے عوام کو ان بنیادی سہولیات کی فراہمی میں بہتری تو کیا اسے رو بہ زوال ہی پایا۔ دیہی علاقوں کے حالات جان کر دل خون کے آنسو رونے لگا کیونکہ وہاں درسگاہوں کی عمارتیں وڈیروں اور طاقتور سیاسی شخصیات کی جاگیر بنی پائیں۔ یہ شرمناک صورتحال بھی دیکھنے کو ملی کہ اسپتالوں کو فنڈز تو جاری ہوتے ہیں لیکن کہاں جاتے ہیں کچھ معلوم نہیں ہو سکا۔ عوام کی قسمت میں خواری ہی خواری، ذلت ہی ذلت۔
حالیہ سینیٹ انتخابات کے دوران بھی ملک میں ایک ہنگامہ برپا دیکھا۔ پیپلز پارٹی ہو یا مسلم لیگ (ن)، پی ٹی آئی ہو یا کوئی اور سیاسی جماعت۔ سب نے اپنے اپنے دعوے اور ووٹنگ نمبر گنوا دئیے ۔ ارکان پارلیمان کی خرید و فروخت کا بازار گرم ہوا، جمہوریت سر عام رسوا ہوئی، بیشتر جماعتوں نے ارکان کو دولت کی چمک دکھا کر اپنے حق میں کرنے کے الزامات لگائے۔ سب کے سامنے جس پارٹی کے پاس ایک سینیٹر منتخب کروانے کے لیے ارکان اسمبلی کی تعداد پوری نہیں تھی، اس کے کئی سینیٹرز جیت گئے۔ جیتنے والوں نے ان الزامات کو مسترد کر کے ثابت کیا کہ شاید کسی نے جادو سے ان کو ووٹ ڈالوا دیئے ہوں۔ پھر وہی ہوا، جو ہونا تھا یعنی 'ایک زرداری ۔۔ سب پر بھاری'۔
بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی اور مولانا فضل الرحمان نے نئی اصطلاح استعمال کی 'جو زرداری پر بھاری، وہ سب پر بھاری'۔
بہرحال کون کس پر بھاری رہا؟ سیاست دان اچھی طرح جانتے ہیں لیکن بتانے کی جرات کسی میں نہیں، یا یوں کہہ لیں کہ کسی مصلحت کا تقاضا ہے۔ کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کو افشا کرنے سے مشکلات بڑھ جاتی ہیں لہذا ایسی باتوں سے پرہیز ہی کرنا چاہیے۔
سینیٹ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) رضا ربانی کا نام زرداری کی جانب سے مسترد کیے جانے کے بعد چیئرمین سینیٹ کی نشست پر راجہ ظفرالحق کو لے آئی، پیپلزپارٹی نے صادق سنجرانی کی حمایت کی اور ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا کو نامزد کیا۔ پی ٹی آئی نے بھی بلوچستان سے چیئرمین سینیٹ لانے پر اس پینل کی حمایت کر دی۔ دیگر نے بھی اپنی حمایت کا اظہار کیا لیکن کہیں کچھ ارکان پارلیمان نے ہاتھ بھی دکھا دیا۔
اس سارے معاملے میں یہ واضح ہو گیا کہ سیاسی جماعتوں میں فیصلے کون کرتا ہے۔ فیصلہ کسی اجلاس یا ایگزیکٹو کونسل کے مشورے سے نہیں ہوتا، بس ایک شخصیت کا فیصلہ سب پر بھاری ہوتا ہے۔
جمہوریت کی دعوے دار سیاسی جماعتوں میں آمرانہ طریقہ انتخاب نظر آتا ہے، یعنی ایک ہی شخصیت کا فیصلہ چلتا ہے۔ چاہتے ہوئے یا نا چاہتے ہوئے اجلاس میں شریک رہنما کہہ دیتے ہیں کہ فیصلے کا اختیار پارٹی سربراہ کو دے دیا ہے وہ جو چاہے فیصلہ کرے۔
غرضیکہ سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کی تعریف ایک شخصیت کے فیصلے کا نام ہے۔ بظاہر مشورے ہوتے ہیں اور اجلاس بھی منقعد کیے جاتے ہیں لیکن حتمی فیصلہ پارٹی سربراہ کرتا ہے اور سب اس کی ہاں میں ہاں ملاتے گھروں کو چلے جاتے ہیں ۔
کہتے ہیں کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے اور اس سے بہتر کچھ نہیں کیوں کہ حکومت کرنے کے لیے جمہوریت کے نام پر جو چاہو کرلو، کوئی جواب طلبی نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ پارلیمان کا استحقاق ہے، یعنی جمہوریت کی آڑ میں آمریت کے مزے۔ اسے کہتے ہیں 'ایک ٹکٹ میں دو دو مزے' یا 'نا ہینگ لگے نا پھٹکری اور رنگ بھی آئے چوکھا'۔
جمہوریت کا نعرہ لگانے والے، آمر کو جی بھر کر برا بھلا کہتے ہیں لیکن جب اپنی سیاسی جماعت جمہوری انداز سے چلانے کی بات آتی ہے تو ٹائیں ٹائیں فش فش ہوجاتا ہے۔ ہمارے سیاستدانوں کو خود احتسابی کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ سیاست میں جمہوریت صرف اصطلاح کے بجائے حقیقتاً دکھائی دینی چاہیے اور جسے سیاستدان آمریت کہتے ہیں، اسے پوری طرح رد کیے بغیر بہتری کی امید لگانا پانی پر چلنے کے مترادف ہوگا۔
یہ درست ہے کہ ارکان پارلیمنٹ کا استحقاق ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔
عدلیہ کا استحقاق اس کی عزت ہے۔
افواج پاکستان کا احترام اس کا استحقاق ہے۔
بیوروکریسی کی طاقت اس کا استحقاق ہے۔
اگر کوئی استحقاق نہیں ہے تو بیچاری عوام کا نہیں ہے عوام کے مقدر میں خوار ہونا لکھا ہے اور انہیں اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کی اجازت نہیں اور جو ایسا کرے اس کے لیے پولیس کے ڈنڈے ہی رہ جاتے ہیں۔
میں سوچتا رہ گیا کہ عدلیہ، پارلیمان، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور بیوروکریسی سمیت ریاست کے تمام ستونوں کا استحقاق ہے، لیکن عوام کا کوئی استحقاق نہیں۔ جب بھی سیاستدان مشکل میں پڑا تو اسے عوام یاد آئی اور مشکل ختم ہوتے ہی عوام ایک بھولی ہوئی داستان بن گئی۔
جمہوریت سیاسی نظام حکومت کے ساتھ ایک رویے اور نظریئے کا نام ہے جسے پوری طرح اپنائے بغیرآمریت کے خلاف جدوجہد لا حاصل ہوگی۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔