24 مارچ ، 2018
کوئٹہ: بلوچستان میں صحت عامہ کی صورتحال قطعی تسلی بخش نہیں ہے، جس کا اندازہ صوبے میں مختلف امراض اور ان میں مبتلا مریضوں کی تعداد کی بڑھتی ہوئی شرح سے لگایا جاسکتا ہے۔
علاج معالجے کی سہولیات کا فقدان اپنی جگہ مگر معاشی و سماجی مسائل اور غربت کے علاوہ عوام میں امراض کی روک تھام کے حوالے سے شعور و آگہی کا نہ ہونا بھی امراض کے پھیلنےکا بڑا سبب ہے، یہی صورتحال 'تپ دق' جسے عرف عام میں 'ٹی بی' کہا جاتا ہے، کے حوالے سے بھی درپیش ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی گلوبل ٹی بی رپورٹ 2017 کے مطابق بلوچستان میں ہر سال 27 ہزار سے زائد ٹی بی کے نئے مریضوں کا اضافہ ہو رہا ہے۔
ماہرین کے مطابق ٹی بی کے مرض میں اضافے کی بڑی وجہ غربت اور شعور و آگہی کا فقدان ہے اور ان مسائل کا شکار کوئی بھی شخص اس مرض میں مبتلا ہوسکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ شہری علاقوں کے سوا بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں اس مرض کی صورتحال کافی گھمبیر ہے۔
ٹی بی کی علامات
فاطمہ جناح چیسٹ اینڈ جنرل اسپتال سے وابستہ ماہر امراض سینہ و تپ دق ڈاکٹر شاویز نے بتایا کہ ٹی بی کی علامات میں تین ہفتے سے زائد مسلسل کھانسی کا ہونا، منہ سے بلغم کا آنا، سینے میں درد کی شکایت اور وزن کا مسلسل کم ہونا شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسی علامات ظاہر ہوں تو مریض کو فوری کسی اچھے معالج سے رجوع کرنا چاہیے اور علاج شروع کردینا چاہیے، جس کے لیے سرکاری اسپتالوں اور صحت کے مراکز میں سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔
'آؤ ٹی بی مٹاؤ' پراجیکٹ
ٹی بی کنٹرول پروگرام بلوچستان کے صوبائی مینیجر ڈاکٹر سلطان احمد لہڑی کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ صوبے میں ٹی بی کے مرض میں اضافہ ہو رہا ہے اور 2017 کی گلوبل ٹی بی رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں سالانہ تقریباً 27 ہزار سے زائد ٹی بی کے مریضوں کا اضافہ ہوتا ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر صوبائی محکمہ صحت نے ٹی بی کنٹرول پروگرام کے تحت گلوبل فنڈ کے مالی اور کراچی کے ایک اسپتال کے تکنیکی تعاون سے 'آؤ ٹی بی مٹاؤ' پراجیکٹ ترتیب دے دیا ہے ۔
'آؤ ٹی بی مٹاؤ' کے عنوان سے 3 سالہ پراجیکٹ ٹی بی کی روک تھام کے حوالے سے عالمی معیار کا ہے، جس کا آغاز ٹی بی کے عالمی دن کے موقع پر 24 مارچ سے کیا جارہا ہے۔
اس پراجیکٹ میں مختلف اقدامات کے ساتھ ساتھ موبائل وین میں نصب جدید ڈیجیٹل ایکسرے کے ذریعے ٹی بی کے ممکنہ مریضوں کی نشاندہی بھی شامل ہے۔
یہ وین مختلف علاقوں، اسپتالوں، اسکولوں،کالجوں اور فیکٹریوں سمیت مختلف مقامات پر جاکر کیمپوں کے ذریعے عوام کی ٹی بی کے مرض کے حوالے سے اسکریننگ کرے گی، اس پراجیکٹ کے نتائج کی روشنی میں اس کی کوئٹہ کے علاوہ مختلف شہروں میں بھی توسیع کی جائےگی۔
ٹی بی کی روک تھام کیلئے دیگر اقدامات
بلوچستان میں ٹی بی کی روک تھام کے لیے صوبے کے تمام اضلاع میں تشخیصی مراکز قائم کر دیئے گئے ہیں جب کہ ہنگامی بنیادوں پر اسکولوں اور کالجوں کی سطح پر آگہی اور ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کو تربیت کی فراہمی کے پروگرام پر بھی عملدرآمد کیا جا رہا ہے۔
اس کےعلاوہ اسٹاپ ٹی بی پارٹنر شپ پاکستان اور نیشنل ٹی بی کنٹرول پروگرام کے تعاون سے بلوچستان میں ٹی بی کی روک تھام کے لیے 5 سالہ اسٹریٹیجک منصوبہ بھی شروع کیا گیا۔ اس منصوبے میں ٹی بی کے بروقت خاتمے کے اقدامات کو صوبے کی ضروریات اور عالمی ادارہ صحت کے تجویز کردہ طریقہ کار کے مطابق تجویز کیا گیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ درست ہے کہ ٹی بی کی روک تھام کےحوالے سے حکومتی اقدامات کے نتائج عوام کے تعاون سے ہی سامنے آسکیں گے لیکن دوسری جانب ان کے سماجی اور معاشی مسائل کے حل کے لیے بھی حکومتی سطح پر بھرپور اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ ٹی بی سے پاک صحت مند معاشرہ تشکیل پاسکے۔