جوہری عدم پھیلاؤ سے متعلق پاکستانی کوششوں سے پوری دنیا آگاہ: ترجمان دفترخارجہ

ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل—۔فائل فوٹو

اسلام آباد: دفتر خارجہ نے امریکا کی جانب سے جوہری تجارت میں ملوث ہونے کے الزام میں 7 پاکستانی کمپنیوں پر پابندی کے معاملے کو 'سیاسی رنگ' دینے پر خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جوہری عدم پھیلاؤ اور تحفظ و سلامتی سے متعلق پاکستان کی کوششوں سے پوری دنیا آگاہ ہے۔

میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے کہا، ' ہم پاکستان مخالف عناصر کی ایسی کوششوں کو رد کرتے ہیں، ایسی کوششوں سے اس کے پس پردہ سیاسی محرکات کے شکوک کو تقویت ملتی ہے'۔

ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ امریکا کی جانب سے جن کمپنیوں پر پابندی لگائی ہے وہ نجی شعبے کی ہیں۔

ڈاکٹر محمد فیصل نے کہا کہ 'پُرامن اور جائز مقاصد کے لیے دہرے استعمال کی اشیا اور ٹیکنالوجی پر پابندی نہیں، پاکستان شفافیت کے ساتھ دہرے استعمال کی اشیا کے سپلائرز کے ساتھ رابطے میں رہا اور پاکستان نے ایسی اشیا کی ترسیل کے بعد بھی تصدیق کو یقینی بنایا'۔

ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ جوہری عدم پھیلاؤ اور تحفظ و سلامتی سے متعلق پاکستان کی کوششوں سے پوری دنیا آگاہ ہے، ایسے معاملات کو سیاسی رنگ نہیں دینا چاہیے۔

ترجمان دفتر خارجہ نے مزید کہا کہ امریکی مصنوعات تک رسائی کے لیے ان کمپنیوں کو مزید لائسننسگ شرائط کا سامنا کرنا پڑے گا اور صورت حال سمجھنے کے لیے امریکا اور ان کمپنیوں سے مزید معلومات حاصل کی جائیں گی۔

واضح رہے کہ گذشتہ روز پاکستان کی 7 کمپنیوں کو امریکی مفادات کے منافی فہرست میں شامل کیا گیا۔

امریکی بیورو آف انڈسٹری اور سیکیورٹی کی جانب سے تیار کی گئی اس فہرست میں ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ان کمپنیوں کو امریکی قومی سلامتی اور پالیسی مفادات کے لیے خطرہ قرار دیا گیا ہے۔

پاکستانی کمپنیوں پر جوہری تجارت میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا ہے۔

امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ اس فہرست سے پاکستان کی نیوکلیئر سپلائرز گروپ (این ایس جی) میں شمولیت کی کوششوں کو دھچکا لگے گا۔

پاکستان نے 19 مئی 2016 کو این ایس جی کی رکنیت کے لیے درخواست دی تھی، تاہم امریکا اور دیگر مغربی ممالک بھارت کو این ایس جی کا رکن بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔

امریکا نے رواں ہفتے مجموعی طور پر 23 کمپنیوں کو اس فہرست میں شامل کیا ہے اور 7 پاکستانی کمپنیوں کے ساتھ ساتھ جنوبی سوڈان کی 15 اور ایک سنگاپور کی کمپنی بھی اس میں شامل ہے۔

مزید خبریں :