08 اپریل ، 2018
اسلام آباد: صدرمملکت ممنون حسین کے دستخط کے بعد ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے حوالے سے صدارتی آرڈیننس جاری کردیا گیا۔
اسکیم کے تحت 2 فیصد ٹیکس دے کر بیرون ملک سے جتنے چاہیں پیسے پاکستان لائے جا سکیں گے جبکہ ایک لاکھ روپے ماہانہ آمدنی پر کوئی ٹیکس نہیں ہوگا۔
صدر پاکستان ممنون حسین نے غیر ملکی اثاثوں کے آرڈیننس برائے سال 2018 کی منظوری دے دی ہے۔آرڈیننس کا نام ’بیرون ملک اثاثوں کا ڈکلیریشن اور وطن واپسی کا آرڈیننس 2018‘ رکھا گیا ہے۔
آرڈیننس کے تحت پاکستان کا کوئی بھی شہری اپنے غیر ملکی اثاثوں کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے سامنے ظاہر کر سکے گا۔اس اثاثے کی مالیت مارکیٹ ویلیو کے حساب سے طے کرے گا اور یہ اثاثے 10 اپریل سے 30 جون 2018 تک ظاہر کیے جا سکیں گے۔
ظاہر یا پاکستان لائے جانے والے غیر ملکی اثاثوں پر ٹیکس ادا کرکے انہیں ریگولرائز کیا جا سکے گا اور جو غیر ملکی اثاثے پاکستان نہ لائے جائیں ان پر ان کی ظاہر کردہ مالیت کا 5 فی صد ٹیکس دینا ہوگا۔
پاکستان کے باہر غیر منقولہ اثاثے ظاہر کرنے پر ان پر ان کی مالیت کے 3 فیصد ٹیکس دینا ہو گا۔ اگر بیرون ملک موجود سیال اثاثے پاکستان واپس لا کر حکومتی سیکیورٹیز میں سرمایہ کاری کے لیے استعمال کیا گیا تو ان پر 2 فیصد ٹیکس لگے گا، لیکن ان پر 3 فیصد کے حساب سے منافع بھی ملے گا۔ جو سیال اثاثے پاکستان لائے جائیں گے ان پر 2 فیصد ٹیکس دینا ہوگا اور یہ تمام ٹیکسز ڈالر میں ادا کیے جائیں گے۔
آرڈیننس کے مطابق کسی غیر ملکی اثاثے کی مالیت اس کی قیمت خرید سے کم نہیں بتائی جائے گی۔ان اثاثوں میں بیرون ملک موجود جائیداد، مورگیج اثاثے، اسٹاک مارکیٹ کے شیئرز، بینک اکاؤنٹ، سونا، جواہرات، نقد رقم، پینٹنگز، کسی اور پر واجب الادا قرضے اور آف شور اثاثے شامل ہوں گے۔
اس اسکیم سے کوئی ایسا شخص فائدہ نہیں اٹھا سکے گا جو یکم جنوری 2000ء کے بعد سے کسی سرکاری عہدے پر رہا ہو۔ ان میں صدر، وزیراعظم، گورنر، وفاقی وزراء اور وزرائے مملکت، اٹارنی جنرل اور دیگر لاء افسران، وزیراعظم کے مشیر اور معاونین خصوصی، ارکان پارلیمنٹ، آڈیٹر جنرل اور پولیٹیکل سیکرٹری شامل ہیں۔
اسی طرح صوبائی وزرائے اعلیٰ اور ارکان صوبائی اسمبلی بھی اس اسکیم سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔ چیف جسٹس، سپریم کورٹ، وفاقی شریعت عدالت اور ہائی کورٹ کے جج اور جوڈیشل افسران بھی اس اسکیم سے مستثنیٰ ہوں گے۔
وفاقی یا صوبائی حکومت کے ملازمین یا کسی صوبائی یا مقامی کونسل کے ملازمین یا ناظمین بھی اس اسکیم سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔ مسلح افواج کے سول ملازمین بھی اس اسکیم سے مستثنیٰ ہوں گے۔
خیال رہے کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے 5 اپریل کو ٹیکس اصلاحات اور ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کیا تھا جس کے تحت 12 سے 24 لاکھ روپے سالانہ آمدن پر 5 فیصد ، 24 سے 48 لاکھ روپے سالانہ پر 10 فیصد اور 48 لاکھ سے زائد سالانہ آمدن پر 15 فیصد ٹیکس دینا ہوگا۔
ٹیکس ایمنیسٹی اسکیم 30 جون تک جاری رہے گی ، سیاسی افراد اور ان کے ماتحت ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ حاصل نہیں کرسکیں گے۔
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا تھا کہ ٹیکس اصلاحات کا نفاذ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے کیا جائے گا جس کی منظوری اب صدر ممنون حسین نے دے دی ہے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ یہ ایمنسٹی اسکیم کسی ایک شخص کے لیے نہیں بلکہ ہر اس شخص کے لیے ہے جو پاکستان کا شناختی کارڈ رکھتا ہے تاہم ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے سیاسی لوگ، ان کے زیر کفالت افراد اور سرکاری ملازمین فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ آف شور کمپنی اثاثہ ہے اسے بھی ظاہر کرنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ ٹیکس ادا نہیں کریں گے ان کے خلاف ڈیٹا بیس استعمال کیا جائے گا اور ٹیکس نادہندہان کے خلاف کارروائی بھی ہو گی۔
وزیراعظم پاکستان نے خبردار کیا تھا کہ اگر کسی نے جائیداد کی ڈیکلیئرڈ ویلیو مارکیٹ ویلیو کے برابر ظاہر نہیں کی تو حکومت اُس کی دگنی رقم سے خریدنے کا حق محفوظ رکھے گی۔