23 دسمبر ، 2024
اسلام آباد: پاکستان سے تعلق رکھنے والے انسانی اسمگلروں کی جانب سے لوگوں کو آذربائیجان سمیت ایران، عراق اور سعودی عرب بلا کر وہاں سے یورپ اور مغربی ممالک بھیجے جانےکا انکشاف ہوا ہے۔
گزشتہ دنوں یونان میں کشتی ڈوبنے کے واقعات میں متعدد پاکستانی شہریوں کی ہلاکت کے بعد غیر قانونی طریقے سے یورپ جانے کی کوشش کرنے والے افراد اور خاص کر انہیں بھیجنے والے انسانی اسمگلروں کے حوالےسے اب کچھ نئے حقائق سامنے آئے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق آذربائیجان پاکستانی انسانی اسمگلروں کا بڑا ہیڈ کوارٹر بن چکا ہے، 19 سال سے ملک میں امیگریشن ایس او پی اپڈیٹ نہ ہونے کی وجہ سے مذہبی بہانے سے سعودی عرب، ایران اور عراق کے راستے بھی انسانی اسمگلنگ عروج پر ہے۔
امیگریشن ذرائع کے مطابق آذربائیجان کا وزٹ ویزا پاکستانی شہریوں کے لیے 26 ڈالر یعنی 7206 روپے میں آن لائن دستیاب ہے جس کے لیے کسی بھی پاکستانی شہری کو بینک اکاؤنٹ اسٹیٹمنٹ یا کوئی دیگر اضافی دستاویزات فراہم کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
ذرائع کے مطابق آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں پاکستانی اور مقامی ٹریول ایجنٹس نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں جو انسانی اسمگلنگ کے تانے بُنتے ہیں اور یہ ایجنٹ یورپ یا دیگر ملکوں میں جانے کے خواہشمند پاکستانیوں کو باآسانی آذربائیجان کا وزٹ ویزہ دلوادیتے ہیں۔
کسی بھی ائیرپورٹ پر امیگریشن پر وزٹ ویزے کے ساتھ مطلوبہ کرنسی دکھا کر آذربائیجان جانے کی اجازت دے دی جاتی ہے، ایسے افراد آذربائیجان پہنچ کر ایجنٹوں سے ساز باز کرکے مختلف ممالک کا رخ کرتے ہیں جہاں سے غیرقانونی طور پر یورپ پہنچنا آسان ہو۔
ذرائع کا بتانا ہے کہ اس طرح کے بہت کم افراد مختلف جعلی دستاویزات کی وجہ سے گرفتار ہوتے ہیں اور انہیں پاکستان ڈی پورٹ کر دیا جاتا ہے۔
اسی طرح موجودہ دنوں میں عمرہ پر سعودی عرب جاکر وہاں موجود ایجنٹوں سے کسی بھی ملک کا جعلی ویزا یا پاسپورٹ حاصل کرکے اگلا سفر جاری رکھنے کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔
گزشتہ ہفتوں میں ایسے درجنوں افراد کو پاکستان ڈی پورٹ کیا گیا ہے جو عمرہ ویزے پر سعودی عرب میں جا کر اگلا سفر جاری رکھنے کے خواہاں تھے۔
اسی طرح ایران میں زمینی یا بحری راستے سے پہنچ کر وہاں سے پاکستانی ایجنٹوں یا مقامی ایجنٹوں کے ذریعے جعلی ویزے یا دستاویزات حاصل کرکے یورپ جانے کی کوششیں کی جاتی ہیں اور ایسے بیشتر افراد کو پاکستان واپسی پر گرفتار بھی کیا گیا ہے۔
عراق میں بھی پاکستانی انسانی اسمگلروں کا نیٹ ورک موجود ہے جب کہ ترکی، تھائی لینڈ، ملائیشیا، جارجیا، مراکش، سنیگال اور دیگر میں بھی پاکستانی انسانی اسمگلر موجود ہیں۔
ذرائع کے مطابق ان ممالک میں مذہبی بہانے سے یا وزٹ ویزے پر جانے والوں کو امیگریشن کے دوران روکنے کے لیے وزارت داخلہ کی جانب سے کوئی تازہ ایس او پیز موجود ہی نہیں کہ کس مسافر کو روکا جائے یا کس مسافر کو جانے دیا جائے۔
اس حوالے سے امیگریشن ذرائع کا بتانا ہے کہ حکومت کی جانب سے آخری پالیسی سال 2005 میں دی گئی تھی جسے 19 سال ہو چکے ہیں۔