25 اپریل ، 2018
آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں ملیریا سے متعلق آگہی کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔
ملیریا ویسے تو ایک خاص قسم کے مچھر سے پھیلنے والا بظاہر عام سا مرض ہے لیکن اگر اس پر توجہ نہ دی جائے اور بروقت تشخیص و علاج نہ کیا جائے تو یہ جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔
پاکستان کے دیگر صوبوں کی طرح بلوچستان میں بھی شعور و آگہی کے فقدان اور طبی سہولیات کی کمی کی وجہ سے ملیریا کے متعدد کیسز سامنے آتے رہتے ہیں اور صوبے کے 34 اضلاع میں سے 29 کو ملیریا کےحوالے سے ہائی رسک قرار دیا گیا ہے۔
یہی نہیں صوبے میں ڈینگی اور چکن گونیا کے کیسز بھی مسلسل رپورٹ ہو رہے ہیں۔
صوبائی مینیجر ملیریا کنٹرول پروگرام بلوچستان ڈاکٹر کمالان گچکی نے جیو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ ملیریا کے حوالے سے اس وقت پاکستان میں سب سےزیادہ ہائی رسک اضلاع بلوچستان میں ہیں ۔
ملک میں ملیریا کے حوالے سے ہائی رسک اضلاع کی تعداد 56 ہے، جن میں سے 29 بلوچستان میں ہیں
ڈاکٹر کمالان گچکی کا کہنا تھا کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں ملیریا کے کیسز میں ہر سال مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
کمالان گچکی کے مطابق سرکاری اسپتالوں اور صحت کے مراکز میں 2016 میں ملیریا کے 53 ہزار کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ گزشتہ سال 2017 میں بلوچستان میں 75ہزار کیسز رپورٹ ہوئے، تاہم اس میں نجی شعبے کے اعداد و شمار شامل نہیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ملیریا کےکیسز میں اضافہ اس وجہ سے نظر آرہا ہے کہ پہلےکیسز رپورٹ نہیں ہوتے تھے، لیکن اب یہ باقاعدگی سے رپورٹ ہورہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر دیکھا جائے تو صوبے میں ہر ایک ہزار میں سے 7 میں ملیریا کی تصدیق ہوئی جب کہ باقی ملک میں یہ شرح 2 فیصد سےکچھ زیادہ بنتی ہے۔
ملیریا کی روک تھام کے حوالے سے اقدامات
ڈاکٹر کمالان گچکی نے بتایا کہ صوبے میں میلریا کی روک تھام کے حوالے سے بھرپور اقدامات کیے جا رہے ہیں، جو درج ذیل ہیں:
انہوں نے بتایا کہ ملیریا کی روک تھام اور علاج کے لیے صوبائی حکومت کو عالمی فنڈز اور عالمی ادارہ صحت کا مالی اور تیکنیکی تعاون حاصل ہے۔
ڈینگی اور چکن گونیا کے کیسز
صوبائی مینیجر ملیریا کنٹرول پروگرام ڈاکٹر کمالان گچکی نے یہ بھی بتایا کہ ملیریا کے خاتمے کے لیے تو کام جاری ہے لیکن صوبے میں چکن گونیا اور ڈینگی کےکیسز بھی سامنے آرہے ہیں جن کی صورتحال بھی خطرناک ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق 2016 میں ڈینگی کے 79 کیسز رپورٹ ہوئے جب کہ 2017 میں ان کیسز کی تعداد 53 تھی۔
ڈینگی کے یہ کیسز زیادہ تر لسبیلہ،کیچ اور گوادرکے علاقوں سے رپورٹ ہوئے۔
طبی ماہرین کے مطابق ملیریا کے مرض میں اضافے کی بڑی وجہ غربت، صحت و صفائی کی کمی اور ان سے متعلق شعور و آگہی کا فقدان ہے۔
بصورت دیگر ایک خاص قسم کے مچھر سے لگنے والی بظاہر عام سی بیماری پیچیدہ شکل اختیار کرنے کے بعد جسم کے دیگر اعضاء کو بھی متاثر کرسکتی ہے۔
اس مرض کی بروقت روک تھام اور علاج بہت ضروری ہے
کوئٹہ کے مقامی صحت اور ملیریا مرکز کے انچارج اور سینئر میڈیکل افسر ڈاکٹر ارباب طارق کاسی کا کہنا تھا کہ ملیریا کو ہمارے ہاں اتنی اہمیت نہیں دی جاتی جتنی کہ دی جانی چاہیے۔
انہوں نے بتایا کہ ہم اکثر اس حوالے سے لاپرواہی اختیار کرتے ہیں، اگر کسی کو کپکپاہٹ کے ساتھ بخار ہو، جسم میں درد کی شکایت، پسینہ آ رہا ہو اور نظام ہضم بھی درست نہ ہو تو اسے ملیریا کی تشخیص کے لیے مخصوص ٹیسٹ ضرور کروانا چاہیے۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ علاج کے لیے مریض کو مناسب دوا دینا ضروری ہے، یہ آگے چل کر دماغ پر بھی اثرانداز ہوسکتا ہے اور جسم کے دیگر اعضاء کو بھی متاثر کرسکتا ہے۔