01 مئی ، 2018
"آج مزدوروں کا عالمی دن ہے، ہمیں پتہ ہے کہ آج کے دن پورے ملک میں چھٹی ہوتی ہے، مگر ہم چھٹی نہیں کرتے، ہمیں اپنے بچوں کاپیٹ پالنے کے لیے آج بھی دیہاڑی لگانی ہے، ہمیں روزانہ کام کرنے کے 5 سو روپے ملتے ہیں، اگر پیسے نہیں ہوں گے تو گھر والوں کا پیٹ کیسے پالیں گے؟ گھر کا چولہا کیسے جلے گا؟"
یہ الفاظ ہیں کوئٹہ کے نواحی علاقے سورینج میں کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے ادھیڑ عمر کان کنوں صلاح الدین اور عبدالحمید کے جو عالمی یوم مزدور کے موقع پر بھی کوئلے کی کان میں مزدوری میں مصروف نظر آئے۔
اور یہ صورتحال صرف صلاح الدین اور عبدالحمید کی ہی نہیں ہے بلکہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی تقریباً یہی صورتحال ہے۔
کوئلہ کان کنوں کی حالت زار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ نامساعد حالات میں بھی انتہائی قلیل معاوضے پر کان کنی جیسا جان جوکھم کا کام کرنے پر مجبور ہیں۔
ان کے لیے سوشل سکیورٹی اور اولڈ ایج بینی فٹ جیسی سہولیات تو آسمان سے تارے توڑ کر لانے کےمترادف ہیں بلکہ ان کان کنوں کے لیے ہنگامی صورت میں حفاظتی انتظامات، رہائش، صحت، پینے کے پانی اور بچوں کے لیے تعلیم جیسی بنیادی سہولیات بھی خواب ہی ہیں۔
شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے ایک مشہور شعر کا یہ مصرعہ 'ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات' ویسے تو ملک میں ہر قسم کے مزدوروں پر صادق آتا ہے مگر بلوچستان میں کوئلے کی کان کنی میں مصروف مزدوروں کی حالت زار دیکھتے ہوئے یہ ان پر پوری طرح سے لاگو ہوتا ہے۔ نامساعد حالات میں یہ کان کن عالمی یوم مزدور کے موقع پر بھی اپنے اور بچوں کے لیے روزی روٹی کے حصول کی غرض سے کام کرنے پر مجبور ہیں۔
سوشل سکیورٹی اور اولڈ ایج بینی فٹ جیسی سہولیات ان مزدوروں کیلئے آسمان سے تارے توڑ کر لانے کےمترادف ہیں
سرکاری ذرائع کے مطابق بلوچستان کے مختلف حصوں میں کوئلے کی تقریباً 2 ہزار 500 کانیں ہیں، جہاں 20 ہزار کے لگ بھگ کان کن دن رات کام کرتے ہیں۔
رہنما بلوچستان مائنز ورکرز فیڈریشن بخت نواب کے مطابق صوبے کی کوئلہ کانوں میں نہ تو ان مزدوروں کے لیے سازگار ماحول ہے، نہ مناسب حفاظتی اقدامات اور نہ ہی ہنگامی صورت میں طبی سہولیات اور رہائش کے لیے مناسب انتظام ہے۔کوئلہ کانوں میں مناسب حفاظتی آلات بھی مہیا نہیں ہیں، جس کا نتیجہ یہاں آئے روز کے حادثات کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان حادثات میں کئی افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور کئی افراد زندگی بھر کے لیے معذور ہوجاتے ہیں۔
ہنگامی حالات میں ریسکیو کا کام بھی یہ مزدور خود ہی کرتے ہیں۔حکومت کی جانب سے صرف دعوے اور وعدے کیے جاتے ہیں، انہیں معاوضے کی رقم کا بھی مسئلہ درپیش رہتا ہے۔
دوسری جانب سہولیات کے فقدان کی وجہ سے کان کنوں میں ہیپاٹائٹس اور ٹی بی کے امراض بھی عام ہیں۔
بخت نواب کے مطابق کوئلہ کانوں میں کام کرنے والے 75 فیصد مزدور ان بیماریوں میں مبتلا ہیں مگر کوئی پرسان حال نہیں۔
صورتحال پر موقف کے لیے جب چیف مائنز انسپکٹر بلوچستان افتخار احمد سے بات کی گئی تو ان کا ماننا تھا کہ کوئلہ کانوں میں سہولیات کی کمی ہے لیکن اس کے ساتھ انہوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ وسائل کے فقدان اور عملے کی کمی کے علاوہ کان کنوں کی مناسب تربیت نہ ہونا بھی حادثات کی بڑی وجہ ہے۔
ان کا کہنا تھا، یہ کان کن 3 ماہ کے لیے کانوں میں آتے ہیں، کام کرکے چلے جاتے ہیں اور پھر ان کی جگہ دوسرے آجاتے ہیں۔ ان کی صحیح تربیت نہیں ہوتی جس کی وجہ سے وہ حادثات کا شکار ہوجاتے ہیں۔
چیف مائنز انسپکٹر کا یہ بھی کہنا تھا کہ کانوں میں حفاظتی انتظامات اور سہولیات کی فراہمی کوئلہ کان مالکان کی ذمہ داری ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس حوالے سے انہیں پابند بھی کیا جاتا ہے لیکن عملے کی کمی کی وجہ سے کانوں کا معائنہ مسلسل نہیں ہوپاتا جبکہ سہولیات کی عدم فراہمی اور حادثات پر کان مالکان کو جرمانہ بھی کیا جاتا ہے۔
چیف مائنز انسپکٹر کا مزید کہنا تھا کہ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ بلوچستان میں زیادہ تر کانیں کانٹریکٹ سسٹم پر چلائی جا رہی ہیں۔ زیادہ تر مالکان نے اپنی کانیں کانٹریکٹرز کو دے رکھی ہیں، جنہیں صرف اپنی آمدنی سے غرض ہوتی ہے اور وہ سہولیات کی فراہمی پر دھیان نہیں دیتے تاہم ہماری کوشش ہے کہ کانوں میں حادثات کی روک تھام اور ہنگامی صورت میں سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔
بلوچستان میں کوئلہ کان کنوں کے لیے سوشل سکیورٹی اور اولڈ ایج بینی فٹ جیسی مراعات تو خیر خواب ہی ہیں لیکن ان مزدوروں کا مطالبہ ہے کہ حکومت اتنا تو کرے کہ کوئلہ مالکان کو اپنی کانوں میں حفاظتی انتظامات اور سہولیات کی فراہمی کا پابند بنائے تاکہ وہ اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے زندہ رہنے کے قابل رہیں نہ کہ بہت سے دوسروں کی طرح ان کوئلہ کانوں کا ایندھن بن جائیں۔