جتھے ہوون سارے انھے!

اب تو یہ حال ہے کہ کرپشن ایک فیشن بن گیا ہے—۔ فوٹو/ بشکریہ لاز آف پاکستان

برصغیر میں آواز اٹھی کہ مسلمان آبادی والے اکثریتی علاقے کو علیحدہ ہونا چاہیے، پھر یہ ایک تحریک بنتی چلی گئی، شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال نے پاکستان کا تصور پیش کیا، مسلمانوں کو قائداعظم جیسا عظیم لیڈر ملا اور ان کی شبانہ روز محنت اور لوگوں کی مدد کے ساتھ پاکستان وجود میں آیا۔

پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد اگرچہ مسائل زیادہ اور وسائل کم تھے لیکن لوگوں کے جذبے اور ایماندار قیادت کی بدولت معاملات بہتر ہونا شروع ہوئے، ایک وقت ایسا بھی آیا جب پاکستان دوسرے ممالک کی مدد کرنے کے بھی قابل بھی ہوگیا۔پاکستان کے اداروں کا شمار دنیا کے بہترین اداروں میں ہوتا چلا گیا، وہ ایسا وقت تھا جب کرپشن کرنے والوں کو لوگ بری نظر سے دیکھتے تھے بلکہ ان کا سوشل بائیکاٹ بھی کردیا جاتا تھا۔

پاکستان میں پھر ایک ایسا دور بھی آیا، جب حکمران طبقے میں کرپشن نے پنجے گاڑنا شروع کر دیئے، جنرل ضیاء الحق کے دور سے ہی کرپشن نے سر اٹھانا شروع کیا اور اب تو یہ حال ہے کہ کرپشن ایک فیشن بن گیا ہے، اگر کوئی شخص کرپشن سے پیسے نہ کمائے تو کہتے ہیں کہ یہ تو پاگل ہے، اور تو اور کئی افسران اور سیاستدان اس کو اپنا حق سمجھتے ہوئے بہت بڑائی سے کہتے ہیں کہ کرپشن سے گھر بنائے اور بڑی بڑی گاڑیاں رکھی ہوئی ہیں، ہاں لیکن جب نیب تفتیش شروع کرے تو کہتے ہیں کہ انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے، کیا کسی کو یہ نظر نہیں آتا کہ ان کی کمائی کیا ہے اور رہن سہن کیسا ہے۔

آج ملک کی جو حالت ہے، اُس پر پنجاب کے مشہور صوفی شاعر بابا بلھے شاہ بہت یاد آئے، پاکستان کا تصور تو علامہ اقبال نے پیش کیا تھا لیکن جس مشکل دور سے ملک گزر رہا ہے، ایسا لگتا ہے کہ بابا بلھے شاہ نے ساڑھے تین سو سال پہلے ہی پاکستان کا تصور پیش کردیا تھا، فرماتے ہیں؎

چل بلھیا! چل اوتھے چلیے، جتھے سارے انھے

بلھے شاہ کے اس شعر کا اردو ترجمہ بتاتا چلوں کہ 'بلھے شاہ! چل ادھر چلیں، جہاں ہوں سارے ہی اندھے' اب تو واقعی ایسا ہی لگتا ہے، جو ہمارے ملک کا حال ہے، جو اداروں کا حال ہے، جس طرح سیاستدان ایک دوسرے کی پگڑیوں کو اچھالتے ہیں،کرپشن کرنے کے باوجود سر اٹھا کر چلتے ہیں، تو ایسا ہی لگتا ہے کہ 'ایتھے سارے ای انھے'۔

اس وقت ملک کی سب سے بڑی خبر سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف احتساب عدالت میں جاری نیب ریفرنسز کی سماعت ہے، جس میں لندن میں بنائی گئی جائیداد اور دوسرے معاملات چل رہے ہیں، نواز شریف نے حال ہی میں بیان دیا کہ وہ نہیں جانتے کہ ان کے بیٹوں نے اربوں روپے کی جائیداد کہاں سے خریدی، جب وہ جائیداد خریدی گئی تھی، اُس وقت ان کے صاحبزادے حسن اور حسین نواز ابھی جوانی میں قدم رکھ رہے تھے، لیکن نواز شریف کہتے ہیں کہ وہ نہیں جانتے۔ اسی طرح آصف زرداری کا برطانیہ میں سرے محل اور سوئٹزرلینڈ میں اربوں روپے سمیت بہت سی جائیدایں ہیں لیکن اس پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا چپ رہنا معنی خیز ہے، بس یہی کہہ سکتے ہیں کہ 'جتھے ہوون سارے انھے'۔

پاکستان کے اداروں میں پی آئی اے وہ ادارہ تھا، جس کا شمار دنیا کی بہترین ایئرلائنز میں ہوتا تھا، جس نے امارات ایئرلائنز بنائی، لیکن اب اس کا حال دیکھیں کہ لوگ سفر کرنا تو دور کی بات پی آئی اے کا نام لینا تک پسند نہیں کرتے، پی آئی اے کا عملہ مسافروں سے نہایت بدتمیزی سے پیش آتا ہے، چلو وسائل کا مسئلہ ہے تو خوش اخلاقی سے بات کرنے پر تو پیسے نہیں لگتے، ہم نے دیکھا ہے کہ جہاں انگلستان جانے کے لیے پی آئی اے کا ٹکٹ نہیں ملتا تھا، اب سیٹیں خالی ہوتی ہیں، جہاز میں کھانے سے لے کر دوسری مراعات تک تمام غیر معیاری ہوتی ہیں اور اب اس ایئر لائن پر لوگ مجبوری کے تحت سفر کرتے نظر آتے ہیں، پھر وہی بات 'جتھے ہوون سارے انھے'۔

پاکستان ریلوے ہو یا اسٹیل ملز، پاکستان کے کسی بھی ایسے ادارے کو لے لیں جس سے عوام کا براہ راست واسطہ پڑتا ہے، لیکن افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ یہ ادارے بہتر ہونے کے بجائے ختم ہوتے جارہے ہیں، پولیس کا حال پہلے سے زیادہ بگڑ گیا ہے، نظام میں خرابی کے باعث لاکھوں کیس عدالتوں میں التواء کا شکار ہیں، پارلیمنٹ میں قانون سازی تو کم ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ اور نازیبا الفاظ تک کا استعمال عام ہوگیا ہے۔

اس سب کے بعد میرے پاس کہنے کو اور کچھ نہیں بچتا، سوائے اس کے کہ، 'چل بلھیا!چل اوتھے چلیے، جتھے سارے انھے' بلکہ میں تو یہ بھی کہوں گا کہ 'انھے بیرے'، یعنی اندھے بہرے!


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔