05 جون ، 2018
اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان میں لگژری گاڑیوں کے استعمال سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے ضبط کی گئی گاڑیوں سے متعلق بیان حلفی جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کسی سیاستدان کو سرکاری گاڑیوں پر انتخابی مہم نہیں چلانے دیں گے۔
واضح رہے کہ چیف جسٹس نے 2 جون کو سماعت کے دوران غیر استحقاق شدہ گاڑیوں کو ضبط کرنے کا حکم دیتے ہوئے وزرا اور سرکاری افسران کے زیر استعمال سرکاری گاڑیوں کا تمام ریکارڈ 5 جون کوطلب کیا تھا۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے آج مذکورہ کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران حکومت نے سپریم کورٹ میں لگژری گاڑیوں کے استعمال سے متعلق رپورٹ پیش کی۔
کس جگہ لکھا ہے کہ سیکیورٹی خدشات پر بلٹ پروف گاڑی دی جاتی ہے؟ چیف جسٹس
چیف جسٹس نے دوران سماعت استفسار کیا کہ 'کس قانون کے تحت سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف کو بلٹ پروف گاڑی دی گئی؟'
چیف سیکرٹری پنجاب نے آگاہ کیا کہ 'سابق وزیراعلیٰ کو سیکیورٹی خدشات ہیں'۔
جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 'ہمیں بتائیں کس جگہ لکھا ہے کہ سیکیورٹی خدشات پر بلٹ پروف گاڑی دی جاتی ہے؟'
ساتھ ہی جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ 'سابق وزیراعلیٰ پنجاب کی ماڈل ٹاؤن رہائش گاہ کے باہر بچوں کے کھیلنے کے پارک کی جگہ مورچے لگا دیئے گئے ہیں'۔
چیف سیکریٹری نے جواب دیا کہ 'پارک کی جگہ اب پارکنگ کے لیے استعمال کی جاتی ہے اور مورچے اور رکاوٹیں ہٹا دی گئی ہیں'۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ 'مجھے شہباز شریف کے ماڈل ٹاؤن رہائشگاہ کے باہر کی ویڈیو بنا کر دکھائیں'۔
بلوچستان کے 7 سابق وزرا کو اپنی گاڑیاں آج جمع کرانے کی ہدایت
سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے آج رات تک بلوچستان کے 7 سابق وزرا کو اپنی گاڑیاں جمع کرانے کی ہدایت کردی۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ گاڑیاں جمع نہ کرانے پر ایک لاکھ روپے یومیہ جرمانہ ہوگا اور ایک ہفتے کے بعد جرمانہ 2 لاکھ روپے روزانہ ہوجائے گا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا کہ بلوچستان کی کُل 56 گاڑیاں ہیں، جن میں سے 49 ریکور ہوچکی ہیں۔
مولانا فضل الرحمان،کامران مائیکل،عبدالغفور حیدری کو جاری نوٹس واپس
سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وفاق میں 105 گاڑیاں ریکور کی ہیں، صرف 3 گاڑیاں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، سابق ڈپٹی اسپیکر سینیٹ عبدالغفور حیدری اور سابق سینیٹر کامران مائیکل کے پاس ہیں۔
چیف جسٹس کی جانب سے تینوں سیاستدانوں کو نوٹس جاری کیے گئے، جو بعدازاں اس یقین دہانی پر واپس لے لیے گئے کہ یہ سیاستدان گاڑیاں واپس کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے پاس کتنی سرکاری گاڑیاں ہیں؟
جس پر ایڈووکیٹ فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ بلاول بھٹوزرداری اور آصف زرداری کے پاس اپنی ذاتی گاڑیاں ہیں۔
چیف جسٹس کا چیئرمین ایف بی آر سے مکالمہ
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) سے پوچھا کہ 'آپ ایک سال سے چیئرمین ایف بی آر ہیں، اسمگلنگ روکنے کے لیےکیا کیا'؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 'آپ نے اسمگلرز کو اجازت دے کر انڈسٹری کو تباہ کردیا ہے'۔
چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ 'بلیو ایریا میں اسمگل شدہ اشیا کھلے عام ملتی ہیں، کل میں چھاپے ماروں گا تو آپ کہیں گے کہ چیف جسٹس باڑہ مارکیٹ چلے گئے'۔
سماعت کے بعد جسٹس ثاقب نثار نے ضبط کی گئی گاڑیوں سے متعلق بیان حلفی جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کسی سیاستدان کو سرکاری گاڑیوں پر انتخابی مہم نہیں چلانے دیں گے۔