پاکستان
Time 14 جولائی ، 2018

پیپلز پارٹی کے 'سیاسی قبلے' لاڑکانہ میں دراڑیں پڑنے کا امکان

گزشتہ کئی دہائیوں سے لاڑکانہ میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ ہولڈر ہی کامیاب ہوتے آئے ہیں—۔ فوٹو: فائل

لاڑکانہ کو پیپلز پارٹی کے 'سیاسی قبلے' کی حیثیت حاصل ہے جہاں سے گزشتہ کئی دہائیوں سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ ہولڈر ہی کامیاب ہوتے آئے ہیں، ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کا بھی یہ حلقہ انتخاب رہا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ پی پی پی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی اپنی زندگی کا پہلا الیکشن اسی حلقے سے لڑ رہے ہیں۔

ایک عام تاثر ہے کہ لاڑکانہ چونکہ پیپلز پارٹی کا گڑھ ہے، اس لیے یہاں اسے شکست دینا ناممکن ہے لیکن حالیہ عام انتخابات میں حقائق اس کے برعکس دکھائی دیتے ہیں۔

یہ پہلا موقع ہے کہ لاڑکانہ جیسے شہر میں پیپلز پارٹی کو مقابلے کا سامنا ہے اور قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر اسے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس اور تحریک انصاف کی شکل میں مخالفت کا سامنا ہے۔  

اسی طرح متحدہ مجلس عمل، لاڑکانہ اتحاد اور ناراض کارکنان کی شکل میں مخالفین کی ایک مضبوط طاقت بھی ابھر کر سامنے آئی ہے جو شہر میں پیپلز پارٹی کی حکمرانی کے سورج کو غروب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ 

لاڑکانہ میں قومی اسمبلی کی 2 اور صوبائی اسمبلی کی 4 نشستیں ہیں، قومی اسمبلی کی ایک نشست این اے 200 پر بلاول بھٹو زرداری میدان میں ہیں جن کا مقابلہ متحدہ مجلس عمل کے راشد محمود سومرو کر رہے ہیں اور دونوں امیدواروں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے، اسی نشست پر تحریک انصاف کی حلیماں بھٹو بھی میدان میں ہیں جو مقابلے میں ڈینٹ ڈال سکتی ہیں۔

نئی حلقہ بندیوں سے قبل یہ نشست این اے 207 تھی جس میں لاڑکانہ سمیت قمبر شہداد کوٹ کے بعض علاقے بھی شامل تھے تاہم اب یہ حلقہ تعلقہ رتو ڈیرو اور تعلقہ لاڑکانہ پر مشتمل ہے، گزشتہ انتخابات میں اس حلقے سے سابق صدر آصف علی زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور کامیاب ہوئیں جبکہ 2008 کے انتخابات میں بھی وہ بلامقابلہ منتخب ہوئی تھیں، تاہم ان کی گزشتہ 10 سالہ کارکردگی سے بیشتر مقامی افراد مطمئن نہیں جس کا اثر بلاول بھٹو کی انتخابی مہم پر پڑ سکتا ہے۔

بلاول بھٹو اور ان کے مدمقابل راشد محمود سومرو دونوں کی انتخابی مہم کے لیے شہید کارڈ استعمال کیا جارہا ہے اور شہر کی مختلف سڑکوں اور دیواروں پر چسپاں پوسٹرز اور پینا فلیکس پر امیدواروں کے ساتھ ساتھ بے نظیر بھٹو اور خالد محمود سومرو کی تصاویر نمایاں ہیں، جو اس جانب اشارہ ہے کہ ووٹ دینے سے قبل شہداء کو ضرور یاد رکھیں۔

فوٹو/ بشکریہ فواد احمد—۔

بلاول بھٹو کے مقابلے میں راشد محمود سومرو کو پیپلز پارٹی کے خلاف بننے والے اتحاد گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کی حمایت بھی حاصل ہے، اگر انتخابات سے قبل آزاد امیدوار اور تحریک انصاف کی حلیمان بھٹو دستبردار ہوجاتی ہیں تو بلاول اور راشد محمود سومرو کے درمیان اچھا مقابلہ ہوگا۔

اسی سلسلے میں جب عوامی رائے جاننے کے لیے ہم نے لاڑکانہ شہر کے کاروباری علاقے پاکستان چوک، بندر روڈ سمیت دیگر علاقوں کا دورہ کیا اور عوام سے ان کے انتخاب سے متعلق جاننے کی کوشش کی تو ملا جلا ردعمل سامنے آیا، بعض افراد کی رائے تھی کہ بلاول بھٹو نوجوان ہیں، اس لیے انہیں آزمایا جانا چاہیے جب کہ بعض کا خیال تھا کہ بلاول، بے نظیر بھٹو کے صاحبزادے ہیں اور یہ شہر بھی پیپلز پارٹی کا ہے اس لیے انہیں ووٹ دیا جائے۔

دوسری جانب ایسے افراد جن سے ماضی میں ملازمت دینے کے وعدے کیے گئے ان کا کہنا تھا کہ (اساں کے ملازمت نہ ملی وی) یعنی ہمیں کوئی ملازمت نہیں ملی اس لیے پیپلز پارٹی کی حمایت نہیں کریں گے، ایسے لوگ جو شہر کی ابتر صورتحال سے تنگ ہیں وہ بھی بلاول کے مخالف دکھائی دیئے، اس لیے 'خاموش ووٹ' ہی کامیاب امیدوار کا فیصلہ کرے گا جس کے لیے 25 جولائی کا انتظار کرنا ہوگا۔

این اے 200 کے نیچے صوبائی اسمبلی کی 2 نشستوں ہیں جس پر پیپلز پارٹی کا مقابلہ پی ٹی آئی اور جے ڈی اے کے ساتھ ہے اور ان نشستوں پر کانٹے کا مقابلہ ہوگا۔

پی ایس 10 پر آصف علی زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور کا مقابلہ تحریک انصاف کے امیر بخش بھٹو کریں گے، دونوں ہی اپنی جگہ اثر و رسوخ رکھتے ہیں، اگرچہ فریال تالپور اس حلقے سے دو مرتبہ قومی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہوتی رہی ہیں لیکن امیر بخش بھٹو کو کئی حوالوں سے فریال تالپور پر برتری حاصل ہے۔

پی ایس 10 پر آصف علی زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور کا مقابلہ تحریک انصاف کے امیر بخش بھٹو سے ہوگا—۔فائل فوٹو

امیر بخش بھٹو سابق وزیراعلیٰ سندھ اور ذوالفقار علی بھٹو کے کزن ممتاز بھٹو کے صاحبزادے ہیں جو انتخابات میں بھٹو فیملی کا ووٹ بینک حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ساتھ ہی وہ اپنی انتخابی مہم میں پیپلز پارٹی کے مخالف ووٹرز کی حمایت بھی حاصل کر رہے ہیں۔

اس نشست پر مجموعی طور پر 14 امیدوار میدان میں ہیں جن میں 10 آزاد امیدوار ہیں لیکن کانٹے کا مقابلہ فریال تالپور اور امیر بخش بھٹو کے درمیان ہی دیکھا جارہا ہے۔

این اے 200 کی دوسری صوبائی نشست پی ایس 11 ہے جس پر پیپلز پارٹی کی ندا کھوڑو کا مقابلہ جی ڈی اے کے معظم علی عباسی سے ہوگا۔ 

پی ایس 11 لاڑکانہ پر سابق اسپیکر سندھ اسمبلی نثار کھوڑو کی صاحبزادی ندا کھوڑو پیپلز پارٹی کی امیدوار ہیں—۔ فوٹو: بشکریہ فواد احمد

ندا کھوڑو سابق اسپیکر سندھ اسمبلی اور سابق وزیر تعلیم نثار کھوڑو کی صاحبزادی ہیں جو والد کی نااہلی کے بعد پہلی مرتبہ انتخابی سیاست میں حصہ لے رہی ہیں۔

اس حلقے سے نثار کھوڑو پیپلز پارٹی کے امیدوار تھے لیکن کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کے بعد انہوں نے اس نشست پر اپنی صاحبزادی ندا کھوڑو کو کھڑا کردیا، ان کے مدمقابل گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے معظم علی عباسی ہیں جو پیپلز پارٹی کے سابق رہنما صفدر عباسی کے بھتیجے ہیں۔

مخالف امیدوار اپنی انتخابی مہم کے دوران پیپلز پارٹی کی ناانصافیوں کا کھل کر تذکرہ کر رہے ہیں جب کہ پیپلز پارٹی کے امیدوار اپنی مہم میں ناراض کارکنوں کو منانے کی تگ و دو اور ریکارڈ ترقیاتی کاموں کی یقین دہانیاں کروا رہے ہیں۔

فوٹو/ بشکریہ فواد احمد—۔

لاڑکانہ کی قومی اسمبلی کی دوسری نشست این اے 201 ہے اور اس حلقے پر بھی اصل مقابلہ پیپلز پارٹی، جی ڈی اے اور تحریک انصاف کے امیدواروں کے درمیان ہے۔ اس نشست پر پیپلز پارٹی کے خورشید احمد جونیجو، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے اللہ بخش انڑ اور تحریک انصاف کی قرۃ العین مقابلے کی دوڑ میں شامل ہیں۔

اس نشست پر مجموعی طور پر 8 امیدوار میدان میں ہیں جن میں سے 5 آزاد امیدوار ہیں اور انتخاب جیتنے کے لیے سارے ہی امیدوار بھرپور زور لگا رہے ہیں۔

این اے 201 کی صوبائی نشست پی ایس 12 پر پیپلز پارٹی کے سہیل انور سیال کا مقابلہ جی ڈی اے کے سید اکبر حسین راشدی اور پی ٹی آئی کی سلمیٰ پروین کر رہی ہیں، اس حلقے میں بھی ان تینوں جماعتوں کا امتحان ہے۔

لاڑکانہ کی نشست پی ایس 13 پر بھی پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور جی ڈی اے کے امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہے، تیر کے نشان پر حزب اللہ بگھیو پیپلز پارٹی کے امیدوار ہیں جب کہ عادل الطاف انڑ جی ڈی اے اور شفقت حسین انڑ تحریک انصاف کے امیدوار ہیں۔ اس حلقے میں انڑ برادری کا ایک بڑا ووٹ بینک ہے اور حزب اللہ بگھیو اور عادل الطاف انڑ کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوسکتا ہے۔ 

25 جولائی کو ووٹنگ کے بعد لاڑکانہ میں اگلے دن کا سورج کیا انتخابی نتائج لے کر آئے گا، ہم سب ہی اس کے لیے بے تاب ہیں۔

مزید خبریں :