پاکستان
Time 19 جولائی ، 2018

الیکشن 2018: این اے 247 اب کسے منتخب کرے گا؟

گزشتہ تین انتخابات میں اس حلقے سے بالترتیب تحریک انصاف، ایم کیو ایم اور متحدہ مجلس عمل نے کامیابی حاصل کی۔ فوٹو: فائل

1839 میں کراچی پر انگریزوں نے تسلط قائم کیا اور اس سے قبل یہ شہر مٹی کی اونچی فصیلوں کے درمیان تک محدود تھا جس کے دو اطراف اونچے اونچے دروازے تھے جنہیں آج کھارادر اور میٹھادر کے نام سے جانا جاتا ہے لیکن اب اس پھیلتے شہر میں پرانا کراچی قومی اسمبلی کے ایک حلقے این اے 247 کے ایک علاقے تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔

قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 247 نئی حلقہ بندیوں سے قبل این اے 250 تھا جس میں پرانی بستیوں سمیت جدید طرز پر تعمیر علاقے شامل ہیں اور یہ حلقہ غربت اور امیری کا امتزاج ہے جس میں ریلوے کالونی، کھارادر، لائٹ ہاؤس، برنس روڈ، کالاپل، ہزارہ کالونی،پنجاب کالونی، دہلی کالونی جیسے گنجان آباد علاقے  شامل ہیں تو وہیں ڈیفنس اور کلفٹن جیسے علاقے بھی اس حلقے میں ہیں جہاں مالی طور پر مستحکم افراد رہائش پذیر ہیں۔

اس حلقے سے گزشتہ انتخابات میں تحریک انصاف نے واضح برتری حاصل کی، ڈاکٹر عارف علوی نے قومی اسمبلی کے لیے پہلی مرتبہ سیاسی کیرئیر کا ڈیبیو اسی حلقے سے کیا، ساتھ ہی خرم شیر زمان اور عمران اسماعیل بھی اسی حلقے سے کامیاب ہوئے جنہیں ایک مرتبہ پھر کامیابی کا چیلنج درپیش ہے اور اس بار حلقے میں کانٹے کے مقابلے متوقع ہیں۔

قومی اسمبلی کی نشست پر ڈاکٹر عارف علوی کا مقابلہ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما ڈاکٹرفاروق ستار اور متحدہ مجلس عمل کے محمد حسین محنتی کریں گے جب کہ پاک سرزمین پارٹی کی فوزیہ قصوری، مسلم لیگ (ن) کے افنان اللہ خان، پیپلز پارٹی کے عبدالعزیز میمن اور آزاد امیدوار و سماجی شخصیت جبران ناصر سمیت مجموعی طور پر 23 امیدوار میدان میں ہیں۔

ڈاکٹر عارف علوی، ڈاکٹر فاروق ستار اور محمد حسین محنتی کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع۔ فوٹو: فائل

امیدواروں نے ووٹرز کی توجہ حاصل کرنے کے لیے کارنر میٹنگز، گھر گھر رابطہ اور ملاقاتوں کا سلسلہ تیز کردیا ہے جس کے دوران انہیں عوامی سوالات کا بھی سامنا ہے، گزشتہ تین انتخابات کا جائزہ لیا جائے تو حلقے میں تحریک انصاف، متحدہ قومی موومنٹ اور متحدہ مجلس عمل کو عوام بالترتیب ایک ایک مرتبہ موقع دے چکے ہیں۔

گزشتہ انتخابات میں اس حلقے سے کامیاب ہونے والے ڈاکٹر عارف علوی پرانے مسائل اور نئی امید کی گھٹڑی اٹھائے عوام سے ووٹ مانگنے نکلے ہیں، ان کے آنے سے قبل حلقے میں جو مسائل تھے وہ بدستور آج بھی ہیں اور سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہے جس سے نہ صرف پرانے علاقے متاثر ہیں بلکہ ڈیفنس جیسا علاقہ بھی پانی کی نعمت سے محروم ہے، ساتھ ہی ٹینکر مافیا کو کھلا چھوڑ کر پانی کی ضروریات کو پورا کیا جارہا ہے، تجاوزات اور ٹریفک جام علاقے کا دوسرا سب سے بڑا مسئلہ ہے جو جوں کا توں ہے۔

ڈاکٹر عارف علوی نے 2013 کے انتخابات میں حیران کن طور پر دو گنا ووٹ حاصل کیے، ان کی کامیابی کے پس پردہ ایک وجہ ڈیفنس کا وہ ووٹرز تھا جو انتخابات میں کبھی بڑھ چڑھ کر حصہ نہیں لیتا تاہم اس بار حالات ویسے نہیں، ووٹر تذبذب کا شکار ہے کیوں کہ جن پتوں پر تکیہ تھا وہی مرجھائے ہوئے نکلے اس لیے 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات میں ڈیفنس کے ووٹرز بھی اہم کردار ادا کریں گے۔

تطہیری عمل سے گزرنے والی جماعت کے سابق ڈپٹی کنوینئر فاروق ستار بھی معرکہ سر کرنے میدان میں اُتریں ہیں۔

2008 میں یہاں سے متحدہ قومی موومنٹ کی امیدوار خوش بخت شجاعت نے 52 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کر کے کامیابی سمیٹی اور انہوں نے مدمقابل پیپلز پارٹی کے امیدوار مرزا اختیار بیگ کو تقریباً ساڑھے 7 ہزار ووٹوں کے فرق سے شکست دی لیکن اس بار تطہیری عمل سے گزرنے والی جماعت کے سابق ڈپٹی کنوینئر فاروق ستار اس حلقے کا معرکہ سر کرنے میدان میں اُتریں ہیں۔

حلقے میں انتخابی مہم کے دوران فاروق ستار بھی ووٹرز سے کامیاب ہونے کی صورت میں مسائل کے حل کے وعدے کر رہے ہیں حالانکہ کئی ادوار میں ان کی جماعت اقتدار کا حصہ رہی لیکن حلقے کے بنیادی مسائل حل نہ ہوسکے۔

2002 کے انتخابات میں یہ حلقہ متحدہ مجلس عمل کا گڑھ ثابت ہوا جہاں ایم ایم اے کے امیدوار عبدالستار افغانی نے 24 ہزار 462 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی اور ایک مرتبہ پھر عام انتخابات کے لیے دینی جماعتوں کا اتحاد سرگرم عمل ہے اور اس بار متحدہ مجلس عمل کی جانب سے محمد حسین محنتی میدان میں ہیں۔

اب کی بار دیانتدار کے نعرے کے ساتھ میدان میں آنے والے ایم ایم اے کے امیدوار چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ ہیں جو مذہبی پس منظر رکھنے کے ساتھ کاروبار سے بھی وابستہ ہیں، حلقے میں کاروباری طبقہ بڑی تعداد میں رہائش پذیر ہے اور اسی کا فائدہ 2008 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے امیدوار مرزا اختیار بیگ نے اٹھانے کی کوشش کی اور بہت تھوڑے فرق سے کامیاب نہ ہوسکے لیکن محمد حسین محنتی کاروباری اور ڈیفنس کے رہائشیوں کا ووٹ لینے کے لیے پرامید ہیں۔

محمد حسین محنتی کا بازاروں، سڑکوں، مساجد اور گرجا گھروں میں ووٹرز سے رابطہ۔ فوٹو: راقم الحروف

این اے 247 میں کاروباری حضرات اور ڈیفنس کے ووٹرز کسی بھی امیدوار کی کامیابی میں اہم کردار ادا کریں گے یہی وجہ ہے کہ امیدوار ان طبقات کو قائل کرنے کی کوشش میں لگے ہیں، اسی حوالے سے ہم نے علاقے کا سروے کیا اور ووٹرز کی رائے جاننے کی کوشش کی جن کا یہی کہنا تھا کہ وہ ایسے امیدوار کا انتخاب چاہیں گے جو صرف باتوں سے نہیں بلکہ عملی طور پر ان کے مسائل حل کرنے کی یقین دہانی کرائیں۔

حلقے کے مصروف ترین علاقے ایمپریس مارکیٹ کے دورے کے موقع پر ہماری ملاقات ایم ایم اے کے امیدوار محمد حسین محنتی سے ہوئی جو دکان دکان جا کر عوام سے ووٹ مانگتے دکھائی دیے، سڑکوں، بازاروں اور مسجد و چرچ بھی گئے اور وہاں کے منتظمین سے ملاقات کے بعد انہیں ووٹ دینے پر قائل کرتے رہے۔

اسی انتخابی ملاقات کے بعد ہماری ملاقات ان کے الیکشن دفتر میں ہوئی جس کے دوران حلقے کے مسائل اور ان کے حل پر بات ہوئی، ان کا ماننا تھا کہ پانی کا مسئلہ علاقے کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جس کا حل اولین ترجیح ہے اور اس کے لیے پہلے سے موجود پلانٹ کو آپریشنل کرنے کے علاوہ نئے پلانٹ لگانا اور سمندر کے پانی کو قابل استعمال بنانے جیسے منصوبے شروع کر کے پانی کے مسئلے کو ہمیشہ کے لیے دور کیا جاسکتا ہے۔


محمد حسین محنتی نے نکاسی آب، ٹریفک کا دباؤ اور تجاوزات جیسے مسائل حل کرنے کے لیے چند تجاویز پیش کیں اور امید ظاہر کی کہ انتخابات میں کامیاب ہو کر مذکورہ عوامی مسائل کو حل کیا جائے گا۔

تین صوبائی نشستوں پر امیدواروں میں مقابلہ

حلقے میں صوبائی اسمبلی کی تین نشستیں پی ایس 109، 110 اور 111 ہیں اور تینوں نشستوں پر تحریک انصاف، ایم کیو ایم، متحدہ مجلس عمل اور مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہے۔

صوبائی اسمبلی کی تین نشستوں پر تحریک انصاف، ایم کیو ایم اور متحدہ مجلس عمل کے امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہے۔ فوٹو: فائل

پی ایس 109 پر تحریک انصاف کے رمضان گھانچی، پی ایس 110 پر خرم شیر زمان اور پی ایس 111 پر عمران اسماعیل میدان میں ہیں جب کہ خرم شیر زمان 2013 کے انتخابات میں بھی صوبائی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہوئے اور اب انہیں آزمائش کا سامنا ہے۔

2008 کے انتخابات میں یہ حلقہ ایم کیو ایم کے پاس تھا اور ایم کیو ایم نے دوبارہ نشستیں حاصل کرنے کے لیے پی ایس 109 پر محمد طاہر، پی ایس 110 پر سید عادل عسکری اور پی ایس 111 پر سید مجاہد رسول کو میدان میں اتارا ہے۔

متحدہ مجلس عمل کی جانب سے مذکورہ حلقوں پر بالترتیب محمد فیصل، عبدالقادر نورانی اور محمد سفیان پر انحصار کیا ہے جب کہ پیپلز پارٹی کے پی ایس 109 پر عبدالرشید نورانی، پی ایس 110 پر پارٹی کے کراچی ڈویژن کے صدر سید نجمی عالم اور پی ایس 111 پر مرتضیٰ وہاب امیدوار ہیں۔

پاک سرزمین پارٹی بھی اس حلقے سے ڈیبیو کر رہی ہے اور پہلی مرتبہ پی ایس 109 پر محمد دلاور، پی ایس 110 پر محمد شریف اعوان اور پی ایس 111 پر سید مبشر امام ڈولفن کے نشان پر انتخاب لڑ رہے ہیں۔ 

مسلم لیگ (ن) بھی حلقے سے صوبائی اسمبلی کی نشستیں حاصل کرنے کی خواہشمند ہے جس کے لیے پی ایس 109 سے تنویر احمد خان، پی ایس 110 پر محمد وسیم وہرہ اور پی ایس 111 پر شیخ جاوید میر میدان میں ہیں۔

مزید خبریں :