پاکستان
Time 29 جولائی ، 2018

بلوچستان میں انتخابات کے بعد امیدوں اور توقعات کا موسم

کوئٹہ شہر میں پانی کی شدید قلت ہےاور پچاس فیصد کےقریب شہری روز مرہ ضرورت اور استعمال کے لئے پینے کا پانی خرید کر پینے پر مجبور ہیں—فائل فوتو۔

انتخابات کا موسم گزر چکا اور اب ملک میں مرحلہ حکومت سازی کا ہے۔ مرکز اور خیبرپختونخوا میں تو واضح ہوگیا کہ پاکستان تحریک انصاف ہم خیال جماعتوں کےساتھ مل کر حکومت بنالےگی۔

اسی طرح اب اس کی نظریں پنجاب میں حکومت بنانے پربھی لگی ہوئی ہیں اور لگتا یہی ہے کہ تحریک انصاف بلوچستان میں بننے والی مخلوط حکومت میں بھی شامل ہوجائے گی۔

توقع کی جارہی ہے کہ حکومت سازی کا مرحلہ چند دنوں میں مکمل ہوجائے گا جس کے نتیجے میں بلوچستان میں کون سی جماعتیں حکومت کاحصہ بنتی ہیں اور ان میں سے کون صوبے کاوزیراعلیٰ منتخب ہوتاہے، اس کا تعین بھی چند روز کی بات ہے مگر اب دیکھنا یہ ہے کہ جو جماعتیں بھی صوبےمیں صاحب اقتدار ہوئیں انہیں کن مسائل اور چیلنجز کا سامنا کرنا ہوگا اور آئندہ مخلوط حکومت اور وزیراعلیٰ ان مسائل اور چیلنجزکو کیسے نمٹتے ہیں۔

وفاقی حکومت کو جو مسائل اور چیلنجز درپیش ہوں گے ان سے قطع نظر اگر صرف بلوچستان کی بات کی جائے تو ان میں سب سے بڑا مسئلہ تو امن وامان کا رہا ہے، جس کا اندازہ انتخابات کے مہینے یعنی جولائی میں دہشت گردی کے واقعات اور خاص انتخابات کے دن ہونے والے المناک واقعہ سے بخوبی ہوگیا ہے۔

200 کے لگ بھگ قیمتی جانیں مستونگ اور کوئٹہ میں ہوئے خودکش حملوں کی نذر ہوئیں جبکہ تقریبا ڈیڑھ سو افراد زخمی ہوکر مختلف معذوری کا شکار ہوئے۔

ان واقعات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آئندہ بھی دہشت گردی ایک مسلسل خطرہ رہے گا۔

اس کےعلاوہ بھی اندرون صوبہ تخریب کاری کے واقعات رونماء ہوتے رہے ہیں۔ ان واقعات میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔

اس کےعلاوہ بلوچستان میں صحت، تعلیم، بنیادی انفراسٹرکچر، روزگار سمیت مختلف مسائل تو اپنی جگہ ہیں ہی لیکن ان کےعلاوہ صوبے میں جو مسئلہ فوری طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے وہ پینے کے پانی کا بحران ہے۔

پینے کے پانی کے بحران کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کوئٹہ شہر میں پانی کی شدید قلت ہےاور پچاس فیصد کےقریب شہری روز مرہ ضرورت اور استعمال کے لئے پینے کا پانی خرید کر پینے پر مجبور ہیں۔

وجہ یہی ہے کہ پینےکے پانی کی فراہمی کا ذمہ دار ادارہ واسا اپنی ذمہ داری پورے کرنے میں یکسر ناکام ہوگیا ہے۔

ہاں، اس کی وجوہات ہیں جن میں برف باری اور بارشوں کی کمی کی وجہ سے زیرزمین پانی کی سطح کا گرنا اور واسا کے بیشتر ٹیوب ویلوں کا خشک ہوجانا ہے۔

بہرحال اب اس مسئلہ سے کس طرح سے نمٹنا ہے کہ آئندہ حکومت کے لئے کسی چیلنج سے کم نہیں ہوگا۔

رہ گئی بات تعلیم اور صحت کے شعبے سے متعلق مسائل کی تو ان شعبوں میں گزشتہ دور میں بجٹ کا ریکارڈ حصہ مختص کئے جانے کے باوجود کوئی خاطرخواہ بہتری نہیں آسکی۔

اس کا اندازہ لگانے کے لئے یہی کافی ہے کہ صوبے کے بیشتر اسکولوں میں طالب علم آج بھی پینے کے پانی، چھت، بیت الخلاء سمیت دیگر تعلیمی سہولیات سے محروم ہیں۔

صوبے کے ایک ہزار800 پرائمری اسکول آج بھی بغیر چھت کے قائم ہیں، 75فیصد اسکولوں میں پینے کے صاف پانی کی سہولت موجود نہیں جبکہ 60 فیصد اسکولوں میں بیت الخلاء کا انتظام نہیں۔ 5000 ایسے اسکول ہیں جو ایک استاد، ایک کمرے پر مشتمل ہیں۔

گزشتہ دور میں بلوچستان کے تعلیمی بجٹ میں ریکارڈ اضافے کے باوجود صوبے کی 12 ہزار آبادیاں ایسی ہیں جہاں اب تک اسکول ہی نہیں ہے جبکہ اب بھی صوبے میں 10 لاکھ سے زائد بچے اور بچیاں اسکولوں سے باہر ہیں۔

اور اگر صحت کے شعبے کی بات کی جائے تو گزشتہ دور میں خطیر رقم خرچ کرنے کے باوجود صحت کے شعبہ کا یہ حال ہے کہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے تمام بڑے سرکاری اسپتالوں میں معیاری طبی سہولیات کا فقدان، ادویات کی کمی، ضروری آلات و مشنیری کی عدم دستیابی کی شکایات عام ہیں۔

اس کےعلاوہ صوبے کے نصف سے زائد اضلاع میں یا تو ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر اسپتال ہی موجود نہیں یا جہاں ہیں وہاں مطلوبہ طبی عملہ اور سہولیات میسر نہیں۔

صحت کے شعبہ کی کسماپرسی کا اندازہ اس سے بھی لگایاجاسکتاہے کہ دوران زچگی ماوں اور نوزائیدہ بچوں کی اموات کی شرح ملک بھر میں سب سےزیادہ بلوچستان میں ہے،،

یہ تو وہ چیدہ چیدہ مسائل ہیں جو کہ آئندہ حکومت کو درپیش ہوں گے اور جنہیں حل کرنا بہرحال حکومت کی اولین ذمہ داری ہوگی۔

اس بناء پر بلوچستان کے عوام کے لئے یقیناً یہ معنی نہیں رکھتا کہ بلوچستان میں کون سی جماعتیں اگلی حکومت میں شامل ہوں گی اور کون سی حزب اختلاف میں۔

کون قائد ایوان کے منصب پر فائز ہوگا اور کس کو قائد حزب اختلاف کی ذمہ داری ملےگی ؟؟ لیکن صوبے کے عوام کی دلچسپی اس بات میں ہے کہ اقتدارمیں شامل ہونےوالی جماعتیں اور نئے وزیراعلیٰ صوبے میں امن وامان کیسے قائم کرتے ہیں اور وہ بے روزگاری، مہنگائی کے ساتھ ساتھ پینے کے پانی، تعلیم، صحت اور بجلی کی لوڈشیڈنگ جیسے مسائل کے حل کے لئے کیا کرتے ہیں؟؟ عوام کو امید ہے کہ اب محض دعوے اور نعرے نہیں بلکہ صحیح معنوں میں کام ہوگا۔

اس بناء پر صوبے میں سیاسی مبصرین اور سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ صوبے کے مسائل کے پیش نظر آئندہ بننے والی حکومت کے لئے اقتدار بہرحال پھولوں کی سیج ثابت نہیں ہوگا۔

مزید خبریں :