بلوچستان میں حکومت کی تشکیل، کچھ بھی کہنا قبل از وقت!

آزاد امیدوار ہی 65 نشستوں پر مشتمل بلوچستان اسمبلی کا آخری فیصلہ کریں گے—۔فائل فوٹو

بلوچستان میں سال 2018 کے انتخابات کے نتیجے میں جہاں بہت سی تبدیلیاں نظر آئیں، وہیں چند سبق بھی سیکھنے کو ملے۔ ایسا لگتا ہے کہ ووٹرز اب اپنی ملحقہ سیاسی جماعتوں کو ووٹ دینے میں دلچسپی نہیں رکھتے، لہذا پاکستان مسلم لیگ (ن)، پختونخواہ عوامی ملی پارٹی اور نیشنل پارٹی ایک بار پھر ووٹ حاصل کرنے کی دوڑ سے باہر ہوگئی جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) ایک بڑی جماعت بن کر ابھری، جس نے 51 عام حلقوں میں سے 15 اپنے نام کیے، بی اے پی کے سامنے دیگر جماعتوں کی شکست کافی بڑی دکھائی دے رہی ہے۔

ان میں سب سے بڑی ہار مسلم لیگ (ن) کی ہے جو ایک بھی پارلیمانی نشست حاصل نہ کرسکی۔ سال 2013 میں اس جماعت نے صوبائی اسمبلی کی 21 نشستیں حاصل کی تھیں لیکن اس بار یہ جماعت صرف ایک ہی نشست حاصل کر پائی۔اسی طرح صوبے میں پختونخواہ عوامی ملی پارٹی کا تناسب بھی 12 سے گر کر ایک پر آگیا اور اس نے اپنی تمام سابقہ قومی اسمبلی کی نشستیں کھو دیں۔اگر نیشنل پارٹی (این پی) کو دیکھا جائے تو وہ اس بار پارلیمانی اور صوبائی دونوں حلقوں سے ہی خالی ہاتھ باہر ہوگئی۔

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے لیے یہ شکست بہت زوردار تھی، جہاں پارٹی چیئرمین محمود خان اچکزئی اپنی دونوں پارلیمانی نشستوں این اے 265 کوئٹہ اور این اے 263 قلعہ عبدااللہ سے بری طرح ہار گئے۔

فاتحین کی طرف آئیں تو سابقہ وزیر پیٹرولیم جام کمال خان نے اپریل 2018 میں مسلم لیگ (ن) چھوڑ کر بلوچستان عوامی پارٹی  (بی اے پی) میں شمولیت اختیار کی اور انہیں پارٹی کا پہلا صدر منتخب کیا گیا۔

بی اے پی انتخابات سے کچھ وقت پہلے اس سال کے آغاز میں دوسری پارٹیوں کو چھوڑنے اور مخالف رائے رکھنے والے 20 سے زائد لوگوں کو ساتھ لے کر تشکیل دی گئی تھی، جو تعداد کے لحاظ سے بلوچستان کے وزیراعلیٰ کو ہٹانے اور نیا وزیراعلیٰ لانے کے لیے کافی مضبوط تھے۔

عام طور پر نئی سیاسی جماعتیں اپنے قدم جمانے میں چند انتخابات کا وقت لیتی ہیں، لیکن پرانے چہروں سے مل کر بنی اس جماعت بی اے پی نے لوگوں کو اپنی طرف کرنے میں زیادہ وقت نہیں لیا۔ درحقیقت اس جماعت نے 25 جولائی کو ہونے والی پولنگ میں صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں ایک بڑے حصے پر قبضہ جمایا۔


انتخابات کے بمشکل ایک ہفتے بعد بی اے پی نے دیگر منتخب اراکین صوبائی اسمبلی کے ساتھ رابطے کرنا شروع کردیئے اور ان کی حمایت کے ساتھ اتحادی حکومت بنانے کے لیے پر امید ہیں۔ جام کمال صاحب نے اپنی ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ 'ہماری پارٹی بلوچستان میں ایک بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے، ہم صوبے میں حکومت بنائیں گے'۔

بی اے پی کی اہم اتحادی جماعتوں میں متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) شامل ہے جس نے اس بار 9 نشستیں حاصل کیں۔ اس کے علاوہ بلوچستان نیشنل پارٹی نے 7 ایم پی ایز اپنے نام کیے جبکہ پاکستان تحریک انصاف 5 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوپائی۔

جو حضرات بلوچستان سے پارلیمنٹ جا رہے ہیں، ان کے علم میں یہ ہونا چاہیے کہ صوبے کی 16 قومی نشستوں میں سے 5 ایم ایم اےکے نام ہیں، جو انتخابات میں ضلع کوئٹہ، قلعہ سیف اللہ اور پشین میں صفایا کرنے میں کامیاب رہی۔ بی اے پی اور بی این پی نے 3،3 نشستیں حاصل کیں جبکہ پی ٹی آئی نے بھی 2 قومی نشستیں حاصل کیں۔


اب جبکہ تمام پتے تیار ہیں تو بلوچستان اسمبلی میں تین سے چار سیاسی جماعتوں کا اتحاد متوقع ہے اور پاکستان کے کسی دوسرے صوبے کی طرح آزاد امیدوار ہی 65 نشستوں پر مشتمل صوبائی اسمبلی کا آخری فیصلہ کریں گے۔ واضح رہے کہ 25 جولائی کو صوبائی حلقوں سے چار آزاد امیدواروں کو بھی عوام کی جانب سے منتخب کیا گیا۔

دوسری جانب وزیراعلیٰ بلوچستان کے لیے بھی مختلف نام زیرِ غور ہیں، جن میں پی ٹی آئی کے سردار یار محمد رند، بی این پی کے سردار اختر منگل اور بی اے پی کے جام کمال خان شامل ہیں۔

تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ بلوچستان میں حکومتوں کے اتحاد کے بارے میں قبل از وقت کوئی بھی کچھ نہیں کہہ سکتا، کیونکہ اس صوبے میں کچھ بھی توقع کی جا سکتی ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔