صدارتی انتخاب کیلئے کس جماعت کے پاس کتنے ووٹ ہیں؟

عددی اعتبار سے تحریک انصاف کو دیگر جماعتوں پر برتری حاصل ہے، اپوزیشن کی تقسیم سے پی ٹی آئی امیدوار کو ہی فائدہ ہوگا۔ فوٹو: فائل

4 ستمبر کو ہونے والے صدارتی انتخاب کے لیے تحریک انصاف کے پاس سب سے زیادہ 251 ووٹ ہیں جب کہ مسلم لیگ (ن) کے پاس 146 اور پیپلز پارٹی کے پاس 116 ووٹ ہیں۔

صدارتی انتخاب کے لیے پارلیمنٹ (قومی اسمبلی و سینیٹ) سمیت چاروں صوبائی اسمبلیوں میں ووٹنگ ہوگی، قومی اسمبلی، سینیٹ اور بلوچستان اسمبلی کے اراکین کے ایک ایک ووٹ ہوں گے۔ 

دیگر تین صوبائی اسمبلیوں (پنجاب، خیبرپختونخوا اور سندھ) میں ووٹوں کا تناسب بلوچستان اسمبلی کے ووٹوں سے نکالا جائے گا، یعنی سندھ، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں سیاسی جماعتوں کے مجموعی ووٹوں کو 60 سے تقسیم کیا جائے گا۔

اس وقت قومی اسمبلی میں ارکان کی تعداد 330، سینیٹ میں 102، پنجاب اسمبلی میں 354، سندھ اسمبلی میں 165، خیبرپختونخوا اسمبلی میں 111 اور بلوچستان اسمبلی میں اراکین کی تعداد 60 ہے۔

صدارتی انتخاب کے فارمولے کے تحت پنجاب اسمبلی میں 5.9 ارکان کا ایک ووٹ شمار کیا جائے گا جب کہ سندھ اسمبلی میں 2.75 ممبران کا ایک ووٹ اور خیبرپختونخوا اسمبلی میں 1.85 ارکان کا ایک ووٹ تصور ہوگا۔

اس طرح وفاقی پارلیمان اور تمام صوبائی اسمبلیوں میں کُل ارکان کی تعداد 1124 اور صدارتی انتخاب کے لیے ووٹ 676 ہیں۔

ذیل میں تمام پارلیمانی جماعتوں کو حاصل ووٹوں کی تفصیل دی گئی ہے۔

تحریک انصاف : (251 ووٹ)

عددی اعتبار سے تحریک انصاف کو دیگر جماعتوں پر برتری حاصل ہے، پی ٹی آئی کے قومی اسمبلی میں 151 ارکان ہیں اس طرح اس کے پاس صدارتی امیدوار کے 151 ووٹ ہیں جب کہ سینیٹ میں تحریک انصاف کے 12 ارکان اور 12 ووٹ ہیں۔

پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کے اراکین کی تعداد 175 اور ووٹ 30.66، سندھ اسمبلی میں 29 ارکان اور ووٹ 11.22، خیبرپختونخوا اسمبلی میں 74 ارکان اور ووٹ 38.79 جب کہ بلوچستان اسمبلی میں 7 ارکان اور ووٹ بھی سات ہیں۔

اس طرح تحریک انصاف کے کل ارکان 448 ہیں اور اس کے پاس صدارتی امیدوار کے لیے 251 ووٹ ہیں۔

مسلم لیگ (ن) : (146 ووٹ)

مسلم لیگ (ن) کے قومی اسمبلی میں اراکین کی تعداد 81 اور سینیٹ میں 33 ہے، اس طرح دونوں ایوانوں میں اس کے مجموعی ووٹوں کی تعداد 114 ہے۔

(ن) لیگ کے پنجاب اسمبلی میں 159 اراکین ہیں اور ووٹ 27.85، خیبرپختونخوا اسمبلی میں 6 اراکین اور ووٹ 3.14، بلوچستان اسمبلی میں ایک رکن اور ایک ووٹ جب کہ سندھ اسمبلی میں (ن) لیگ کا کوئی رکن نہیں اس لیے ووٹ بھی کوئی نہیں۔

اس طرح مسلم لیگ (ن) کے کل ارکان کی تعداد 280 ہے اور اس کے پاس صدارتی انتخاب میں اپنے نامزد امیدوار کو ووٹ دینے کے لیے 146 ووٹ ہیں۔

پیپلز پارٹی : (116 ووٹ)

پیپلز پارٹی کے قومی اسمبلی میں 54 اور سینیٹ میں 20 ارکان ہیں، یوں اس کے پاس پارلیمنٹ میں صدارتی امیدوار کے 74 ووٹ ہیں۔

سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے 97 اراکین اور ووٹ 37.52، پنجاب اسمبلی میں 7 اراکین اور ووٹ 1.22، خیبرپختونخوا اسمبلی میں 5 اراکین اور ووٹ 2.62 جب کہ بلوچستان اسمبلی میں کوئی رکن نہیں۔

اس طرح پیپلز پارٹی کے پاس پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں اراکین کی کل تعداد 183 اور صدارتی ووٹ 116 ہیں۔

متحدہ مجلس عمل : (38 ووٹ)

مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کے قومی اسمبلی میں 15 اور سینیٹ میں 6 اراکین ہیں اس طرح صدارتی امیدوار کے لیے پارلیمنٹ میں اس کے پاس 21 ووٹ ہیں۔

خیبرپختونخوا اسمبلی میں ایم ایم اے کے 13 اراکین اور ووٹ 6.81، بلوچستان میں 10 اراکین اور 10 ووٹ، سندھ اسمبلی میں ایک رکن اور 0.38 ووٹ جب کہ پنجاب اسمبلی میں کوئی رکن نہیں۔

یوں قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں متحدہ مجلس عمل کے کل ارکان کی تعداد 45 اور اس کے پاس 38 ووٹ ہیں۔

متحدہ قومی موومنٹ : (20 ووٹ)

متحدہ قومی موومنٹ کے قومی اسمبلی میں 7 اراکین اور سینیٹ میں 5 ارکان ہیں اور یوں اسے پارلیمنٹ میں 12 ووٹ ہیں جب کہ سندھ اسمبلی میں 21 ارکان کے ساتھ اس کے پاس 8.12 ووٹ ہیں۔

ایم کیو ایم کی پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان اسمبلی میں کوئی نمائندگی نہیں اور اس کے کل اراکین کی تعداد 33 اور ووٹ 20 ہیں۔

بلوچستان عوامی پارٹی : ( 29 ووٹ)

بلوچستان عوامی پارٹی کی قومی اسمبلی میں 5 اور بلوچستان اسمبلی میں 24 نشستیں ہیں، اس طرح اس کے پاس کل ووٹ 29 ہیں۔ بلوچستان عوامی پارٹی کی سینیٹ، سندھ، خیبرپختونخوا اور پنجاب اسمبلی میں کوئی نمائندگی نہیں۔

بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) : (14 ووٹ)

بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کی قومی اسمبلی میں 4 اور سینیٹ میں ایک نشست ہے، دونوں ایوانوں کے مجموعی ووٹ 5 بنتے ہیں اور اگر بلوچستان اسمبلی کے 9 ارکان کے ووٹوں کو بھی شامل کیا جائے تو بی این پی مینگل کو حاصل مجموعی ووٹوں کی تعداد 14 بنتی ہے۔

گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس : (9 ووٹ)

جے ڈی اے کے قومی اسمبلی میں 3 اور سینیٹ میں ایک رکن ہے جب کہ سندھ اسمبلی میں اس کے ارکان کی تعداد 14 اور ووٹ 5.41 ہیں، یوں جے ڈی اے کے کل ارکان 18 اور صدارتی امیدوار کو دینے کے لیے مجموعی ووٹ 9 ہیں۔

مسلم لیگ (ق) : (4 ووٹ)

مسلم لیگ (ق) کی قومی اسمبلی میں 3 نشتیں ہیں جب کہ پنجاب اسمبلی میں 10 نشستیں اور 1.75 ووٹ، اس طرح ق لیگ کے کل ارکان 13 اور ووٹ 4 ہیں۔

عوامی نیشنل پارٹی : ( 10 ووٹ)

اے این پی کی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ایک ایک نشست ہے جب کہ خیبرپختونخوا اسمبلی میں 8 نشستیں اور 4.19 ووٹ اور بلوچستان اسمبلی میں 4 ارکان اور 4 ہی ووٹ ہیں۔

یوں اے این پی کے کل ارکان 14 اور ووٹ 10 ہیں۔

جمہوری وطن پارٹی : (2 ووٹ)

جمہوری وطن پارٹی کی قومی اسمبلی اور بلوچستان اسمبلی میں ایک ایک نشست ہے اور کل دو نشستوں کے ساتھ اس کے پاس صدارتی امیدوار کو ووٹ دینے کے لیے دو ووٹ ہیں۔

آزاد اراکین : (19 ووٹ)

قومی اسمبلی میں آزاد اراکین کی تعداد 4، سینیٹ میں 14، پنجاب اسمبلی میں 2 اور خیبرپختونخوا اسمبلی میں 5 ہے، یوں پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں آزاد اراکین کی کل تعداد 25 بنتی ہے جن کے کل ووٹ 19 ہوں گے۔

پختونخوا ملی عوامی پارٹی : (5 ووٹ)

پختونخوا میپ کے سینیٹ میں 4 اور بلوچستان اسمبلی میں ایک رکن ہے اس طرح اس کے کل اراکان 5 اور کل ووٹ بھی 5 ہی ہیں۔

نیشنل پارٹی : (5 ووٹ)

نیشنل پارٹی کے سینیٹ میں 5 اراکین ہیں اس کے پاس ووٹ بھی 5 ہی ہیں۔

بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی : (2 ووٹ)

بی این پی عوامی کی بلوچستان اسمبلی میں 2 نشستیں ہیں اور اس کے پاس صدارتی امیدوار کو دینے کے لیے بھی دو ووٹ ہیں۔

ہزاری ڈیمو کریٹک پارٹی اور عوامی مسلم لیگ کے پاس بھی ایک ایک ووٹ ہے جب کہ سندھ اسمبلی میں تحریک لبیک کے 2 اراکین ہیں اور ان کے ووٹ کا تناسب 0.07 بنتا ہے۔

وفاقی پارلیمان میں عددی گیم

قومی اسمبلی میں اس وقت 342 میں سے 330 ارکان موجود ہیں اور 12 سیٹیں خالی ہیں، اس طرح 330 میں 176 ارکان پی ٹی آئی اتحاد، 150 اپوزیشن اتحاد اور 4 آزاد ارکان ہیں۔

سینٹ میں 68 ارکان کا تعلق اپوزیشن اتحاد سے ہے، 25 کا تعلق پی ٹی آئی اتحاد سے جبکہ 11 ارکان آزاد ہیں۔

یوں وفاقی پارلیمان میں پی ٹی آئی اتحاد کو 201 اور اپوزیشن اتحاد کو 218 ووٹ حاصل ہیں جبکہ 15 ارکان آزاد ہیں۔

یوں اپوزیشن کی تقسیم سے تحریک انصاف کے امیدوار ڈاکٹر عارف علوی کی کامیابی یقینی ہے، اگر اپوزیشن نے ایک امیدوار پر اتفاق کیا تو حکمراں جماعت کے لیے اپنا صدر لانے میں مشکل پیش آسکتی ہے۔

مزید خبریں :