03 اکتوبر ، 2018
اسلام آباد ہائیکورٹ میں 2 لاپتہ بچیوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اسلامی ریاست میں بچیوں کا لاپتہ ہونا ہمارے لیے ایک سوالیہ نشان ہے۔
ساتھ ہی عدالت عالیہ نے بچیوں کو تلاش کرنے کے لیے سیکریٹری داخلہ اور ڈی جی ایف آئی اے کو فوری اقدامات کرنے کی بھی ہدایت کردی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے 2016 سے لاپتہ دو بچیوں سامعہ اور ادیبہ کی کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران سیکریٹری داخلہ میجر (ر) اعظم سلیمان اور ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن جبکہ وفاق کی جانب سے ڈپٹی اٹارنی جنرل ارشد محمود کیانی عدالت میں پیش ہوئے۔
دوران سماعت پولیس نے بتایا کہ سامعہ اور ادیبہ 2016 سے لاپتہ ہیں۔
جس پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیئے کہ 'اسلامی ریاست میں بچیوں کا لاپتہ ہونا ہمارے لیے سوالیہ نشان ہے'۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'میں سوچتا ہوں کہ اپنے رب کو کیا جواب دیں گے، ہم سب بچیوں والے ہیں، اللہ نہ کرے کسی بھی بچی کے ساتھ ایسا ہو'۔
اس موقع پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی آبدیدہ ہو گئے۔
ساتھ ہی انہوں نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ڈی جی ایف آئی اے سے کہا کہ 'ایف آئی اے سے درخواست کی تھی، آپ بھی کچھ نہیں کرسکے'۔
جس پر ڈی جی ایف آئی اے نے کہا کہ 'تھوڑا وقت دے دیں، ایک بندے کا پتہ چلا ہے، بچیوں کے بارے میں جلد پتہ لگا لیا جائے گا'۔
جسٹس صدیقی نے ریمارکس دیئے کہ 'مجھے لگ رہا ہے کہ ریاستی ادارے ناکام ہیں، اگر کسی کا کتا گم جائے تو اس کو بھی برآمد کیا جاتا ہے'۔
عدالت عالیہ نے استفسار کیا کہ 'کہا جاتا ہے کوئی زمین کی تہہ تک جائے تو اسے بھی ٹریس کیا جاتا ہے، پھر کہاں ہے وہ ادارہ؟'
شوکت عزیز صدیقی نے مزید کہا کہ 'اسلام آباد پولیس نے مجھے مایوس کیا'۔
انہوں نے مزید کہا، 'مجھے کوشش نہیں عملی کام چاہیے، عدالت کو لولی پوپ دینا بند کیا جائے اور آئندہ سماعت تک بچیاں بازیاب کرائی جائیں'۔
اس کے ساتھ ہی عدالت نے سماعت 19 اکتوبر تک ملتوی کردی۔