01 اگست ، 2012
اسلام آباد … چیف جسٹس نے کہا ہے کہ این آر او فیصلے پر عمل نہ کرنے پر ایک وزیراعظم کو سزا ہوگئی، اب کہتے ہیں دوسرے کو سزا نہ دی جائے۔ سپریم کورٹ کے ججز کا کہنا ہے کہ عدلیہ کی عظمت نہ رہی تو لینڈ اور ڈرگ مافیا اسے تباہ کردیں گے، پبلک آفس ہولڈرگالی دے کر کہہ سکتا ہے کہ اس نے اچھی نیت سے دی، کیس کی سماعت کل بھی جاری رہے گی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 5رکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی، وفاق کے وکیل شکور پراچہ نے کہاکہ مقننہ پر قانون سازی سے متعلق بدنیتی کا الزام عوام پر الزام لگانے کے مترادف ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمنٹیرینز کو اظہاررائے کی مشروط آزادی ہے، جسٹس تصدق جیلانی نے کہاکہ سادہ اکثریت سے بنا یا گیا قانون آئین کے مقصد کو تبدیل نہیں کرسکتا۔ جسٹس خلجی عارف نے کہاکہ نئے قانون میں توہین کی تعریف میں لفظ ”گالی دینا“ کیسے خارج کردیا گیا حالا نکہ یہ آئین میں درج ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ طے شدہ اصول ہے کہ جو قانون بچ سکتا ہو اسے بچایا جائے، نئے قانون میں ہے کہ کوئی بھی پبلک آفس ہولڈر، صدر اور گورنر جیسا استثنا لے سکتا ہے۔ سینیٹر اعتزاز احسن اور رضا ربانی نے کہاتھا کہ نیا قانون، آرٹیکل 204 سے متصادم ہے۔ وفاق کے وکیل نے کہاکہ پرانے قانون کی بنیاد پر آئندہ توہین عدالت کی کارروائی نہیں ہوسکتی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آئین تو کہتا ہے کہ توہین عدالت کرنے والے کسی بھی شخص کو سزا ہوگی، این آر او فیصلے پر عمل نہ کرنے پر ایک وزیراعظم کو سزا ہوگئی، اب کہتے ہیں کہ دوسرے کو عمل نہ کرنے پر سزا نہ دی جائے، عدالتیں تو اصول پر کاربند رہنے اور آئین کی پابند ہیں۔ وفاق کے وکیل نے کہاکہ کوئی بھی جج اپنے معاملے میں سماعت کا نہیں کرسکتا، چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کہتے ہیں کہ پہلے ایک جج کو گالی دو تھپڑ مارو پھر دوسرا جج کیس سنے۔ وفاق کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے پر اٹارنی جنرل نے دلائل شروع کر دیئے ہیں۔