پاکستان
Time 29 اکتوبر ، 2018

حدیبیہ پیپرز ملز کیس: نیب کی نظر ثانی درخواست مسترد

نیب کے وکیلوں کو لاء کلاسز لینے کی ضرورت ہے، جسٹس قاضی فائر عیسیٰ۔ فوٹو: فائل 

سپریم کورٹ نے حدیبیہ پیپلز ملز کیس میں نیب کی نظر ثانی کی درخواست مسترد کردی۔

نیب کی جانب سے حدیبیہ پیپرز ملز کیس میں نظرثانی درخواست کی سماعت سپیریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں کی۔

دوران سماعت نیب پراسیکیوٹر کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا کہ اسحاق ڈار نے بطور وعدہ معاف گواہ بیان دیا اور بعد میں اپنے بیان کو غیر قانونی قرار دیا اور ہائیکورٹ نے اسحاق ڈار کے بیان پر ریفرنس کالعدم قرار دیا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ پہلے سپریم کورٹ کے فیصلے پر بات کریں، پہلے تعین تو کر لیں کہ جرم ہوا کیا تھا۔

جسٹس مشیر عالم نے نیب پراسیکیوٹر سے کہا کہ آپ دُم پکڑ کر شروع ہو گئے ہیں، پہلے سپریم کورٹ کے فیصلے میں غلطیوں کی نشاندہی کریں۔

اسپیشل پراسیکیوٹر نیب عمران الحق نے عدالت کو بتایا کہ 1992 میں کرائم ہوا تھا، فارن کرنسی اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کے الزامات تھے لیکن فرد جرم عائد نہیں کی جا سکی تھی۔

جسٹس مشیرعالم نے استفسار کیا کہ نیب نے ریفرنس میں فردجرم کیوں عائد نہیں کی،کس نے روکا تھا؟

جسٹس قاضی فائذ عیسیٰ نے کہا کہ آپ کسی پر فرد جرم عائد نہ کریں، چاہے 30 سال گزر جائیں،کیا یہ آپ کی مرضی پر منحصر ہے؟

انہوں نے مزید کہا کہ جرم 1992 میں ہوا، کیس 2000 میں بنا اور 2018 میں آپ کی نظرثانی کی درخواست آئی، نیب سوچتا رہا اور پھر سیاسی مقاصد کے لئے کیس کر دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 2000 میں مارشل لاء تھا،کس سیاسی اثر و رسوخ نے آپ کو فرد جرم عائد کرنے سے روکا؟ سپریم کورٹ کے فیصلے میں ایسی کونسی غلطی ہے جو درست ہونا چاہیے؟

جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ پاناما فیصلے میں حدیبیہ پیپر ملز کیس کا ذکر نہیں، ہمارا نظرثانی فیصلہ بہت واضح ہے، آپ ہمارے ذریعے پاناما فیصلے پر نظر ثانی کرانا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آپ باہر جا کر تقریریں کریں گے جو سرکاری افسران کے کنڈکٹ کے خلاف ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں فیصلے میں حقائق، قانون درست ہے، آپ صرف نظر ثانی کر دیں۔

ان کا کہنا تھا کہ نیب کے وکیلوں کو لاء کلاسز لینے کی ضرورت ہے، آپ نے ابھی تک نظر ثانی اپیل پر بات نہیں کی، آپ کو انگریزی سمجھ نہیں آتی تو ہم ترجمہ کرکے دینے کے ذمہ دار نہیں۔

انہوں نے کہا کہ نیب اپنے اعتماد کو کیوں تباہ کر رہا ہے، آپ کہتے ہیں نیب وزیراعظم، وزیراعلیٰ آفس کے خلاف کام نہیں کر سکتا، آج لکھ کر دےدیں آپ وزیراعظم، وزیراعلیٰ آفس کے خلاف کچھ کرنےکا اختیار نہیں رکھتے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ لکھ کر دے دیں کہ اُس وقت فوجی حکومت تھی لوگ ڈرتے تھے۔

حدیبیہ کیس کا پس منظر

سابق صدر پرویز مشرف کے دور حکومت کے دوران نیب کی جانب سے حدیبیہ پیپرز ملز ریفرنس سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے 25 اپریل 2000 کو لیے گئے اس بیان کی بنیاد پر دائر کیا جس میں انھوں نے جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے شریف خاندان کے لیے ایک کروڑ 48 لاکھ ڈالر کے لگ بھگ رقم کی مبینہ منی لانڈرنگ کا اعتراف کیا تھا۔

اسحاق ڈار بعدازاں اپنے اس بیان سے منحرف ہو گئے اور کہا کہ یہ بیان انہوں نے دباؤ میں آ کر دیا۔

لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ نے اکتوبر 2011 میں نیب کو اس ریفرنس پر مزید کارروائی سے روک دیا تھا جس کے بعد 2014 میں لاہور ہائی کورٹ نے یہ ریفرنس خارج کرتے ہوئے اپنے حکم میں کہا تھا کہ نیب کے پاس ملزمان کے خلاف ناکافی ثبوت ہیں۔

س ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے علاوہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، حمزہ شہباز، عباس شریف، شمیم اختر، صبیحہ شہباز، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر فریق ہیں جب کہ اسحاق ڈار کو بطور وعدہ معاف گواہ شامل کیا گیا۔

پاناما کیس کے فیصلے کی روشنی میں قومی احتساب بیورو نے حدیبیہ پیپرز ملز کے مقدمے میں ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں کیس دوبارہ کھولنے کی اپیل دائر کی تھی۔

مزید خبریں :