حدیبیہ پیپرملز کیس کی دوبارہ تفتیش نہیں ہو سکتی، سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ


سپریم کورٹ نے حدیبیہ پیپر ملز کیس سے متعلق تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کیس کو دوبارہ تفتیش نہیں ہو سکتی۔

سپریم کورٹ نے حدیبیہ ریفرنس کھولنے کے لیے نیب کی اپیل مسترد کرنے کا 36صفحات کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے۔

حدیبیہ پیپر ملز کیس کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہائی کورٹ نے ریفرنس درست طور پر مسترد کیا، ایک جج نے دوبارہ تفتیش کا فیصلہ دیا لیکن انہوں نے وجوہات نہیں بتائيں۔

عدالت عظمیٰ نے لکھا کہ اسحاق ڈار کے بیان کو درست تسلیم کر بھی لیا جائے تو اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں بنتی، وجہ یہ ہے کہ نواز شریف اور ان کے خاندان کو جرح کا قانونی حق نہیں دیا گیا۔

فیصلے میں لکھا گیا کہ ریفرنس کو بلاوجہ لمبے عرصے کے لیے لٹکایا گیا اور جے آئی ٹی رپورٹ میں بھی کچھ نیا نہیں۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ نیب پراسیکیوٹر جنرل نے دعویٰ کیا کہ جے آئی ٹی نے اضافی فارن کرنسی اکاؤنٹس کا پتا چلایا ہے، اگر یہ مان بھی لیا جائے تو بھی کچھ نیا نہیں، ایسا مواد پہلے ہی نیب کے پاس موجود تھا۔

تفصیلی فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں ہائی کورٹ کے معزز ججز سے متعلق یہ الفاظ کہ انہوں نے ریفرنس ختم کرتے ہوئے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا، غیر مناسب اور توہین عدالت کے مترادف ہیں، جے آئی ٹی نے غیرسنجیدگی کی کوئی ایک مثال بھی نہیں دی۔

متفقہ فیصلے میں سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ پانامہ جے آئی ٹی کی یہ سفارش کہ نیب کو حدیبیہ کیس کی دوبارہ تفتیش کے لیے اپیل داخل کرنے کا حکم دیاجائے، پریشان کن ہے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ نیب ایک قانونی ادارہ ہے اور توقع ہے وہ آزادی سے کام کرے، ایسا نہیں کہ جے آئی ٹی کے کہنے پر وہ اپنی آزادی ختم کردے۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے 15 دسمبر 2017 کو حدیبیہ پیپر ملز کیس دوبارہ کھولنے سے متعلق تمام درخواستوں کو مسترد کر دیا تھا۔

حدیبیہ کیس کا پس منظر

سابق صدر پرویز مشرف کے دور حکومت کے دوران نیب کی جانب سے حدیبیہ پیپرز ملز ریفرنس سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے 25 اپریل 2000 کو لیے گئے اس بیان کی بنیاد پر دائر کیا جس میں انھوں نے جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے شریف خاندان کے لیے ایک کروڑ 48 لاکھ ڈالر کے لگ بھگ رقم کی مبینہ منی لانڈرنگ کا اعتراف کیا تھا۔

اسحاق ڈار بعدازاں اپنے اس بیان سے منحرف ہو گئے اور کہا کہ یہ بیان انہوں نے دباؤ میں آ کر دیا۔

لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ نے اکتوبر 2011 میں نیب کو اس ریفرنس پر مزید کارروائی سے روک دیا تھا جس کے بعد 2014 میں لاہور ہائی کورٹ نے یہ ریفرنس خارج کرتے ہوئے اپنے حکم میں کہا تھا کہ نیب کے پاس ملزمان کے خلاف ناکافی ثبوت ہیں۔

اس ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے علاوہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، حمزہ شہباز، عباس شریف، شمیم اختر، صبیحہ شہباز، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر فریق ہیں جب کہ اسحاق ڈار کو بطور وعدہ معاف گواہ شامل کیا گیا۔

گزشتہ برس ستمبر میں پاناما کیس کے فیصلے کی روشنی میں قومی احتساب بیورو نے حدیبیہ پیپر ملز کے مقدمے میں ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں کیس دوبارہ کھولنے کی اپیل دائر کی جسے مسترد کردیا گیا تھا۔

مزید خبریں :