30 نومبر ، 2018
پاکستان کو اس وقت دہشت گردی سمیت معاشی، اقتصادی اور دیگر چیلنجز کا سامنا ہے لیکن اس سب کے باوجود شہر کراچی میں جاری بین الاقوامی دفاعی نمائش آئیڈیاز 2018 اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ہمیں عالمی سطح پر مقابلہ کرنا آتا ہے۔
بین الاقوامی دفاعی نمائش آئیڈیاز 2018 عالمی سطح پر امن، دوستی اور استحکام کی نشانی بن چکی ہے، ساتھ ہی اس کے ذریعے پوری دنیا کو یہ پیغام بھی دیا گیا ہے کہ پاکستان دفاعی صلاحیت میں کسی سے پیچھے نہیں اور ایک طاقتور ملک ہے۔
اس دفاعی نمائش میں 50 سے زائد ممالک کے اداروں، کمپنیوں اور وفود نے نہ صرف ایک دوسرے کی دفاعی صلاحیتوں کو دیکھا اور پرکھا، وہیں پاکستان کی میزبانی کو بھی خوب سراہا گیا۔
پاکستان نے دفاعی نمائش میں جہاں ملٹی رول ڈرون ’براق‘ متعارف کروایا، وہیں جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ تیز رفتار اور اضافی رینج والا ’شاہ پر‘ ڈرون بھی توجہ کا مرکز رہا، جو 17 ہزار فٹ بلندی تک جاسکتا ہے۔
اس نمائش میں سپر مشاق بھی سب کی توجہ کا مرکز بنا رہا جو کہ ساب سفاری MFI-17 مشاق کا اَپ گریڈ ورژن ہے۔ یہی نہیں جدید صلاحیتوں سے آراستہ ٹینکرز، بندوقیں، بکتر بند گاڑیاں، کلاشنکوف اور دیگر شاندار دفاعی صلاحیت رکھنے والے آلات کے ماڈلز نے بھی لوگوں کو خوب متاثر کیا۔
جدید اور آرام دہ حفاظتی جیکٹس، ہیڈ کورز اور دیگر آلات بھی نمائش کا حصہ بنے، جنہوں نے عوام کے ساتھ غیر ملکی باشندوں کو بھی اپنی طرف متوجہ کیے رکھا۔
دفاعی نمائش میں پیش کیے گئے دیگر ممالک کے دفاعی ہتھیاروں کے ماڈلز کو بھی خوب سراہا گیا، جس سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سب ہی آئیڈیاز پلیٹ فارم کے توسط سے اپنے اپنے ملک کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
آئیڈیاز 2018 میں چین کا جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ڈیجیٹل ایگل AK-62 ڈرون سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانے میں کامیاب رہا۔ یہ ایک کلومیٹر کی بلندی تک آپریٹ کیا جاسکتا ہے۔ اس کا کیمرہ 19mm ہے، جس سے 800 کلومیٹر دور تک کی حرکت پتہ چل سکتی ہے۔
ڈرون، میزائل، ہیلی کاپٹرز کے علاوہ چینی کمپنیوں نے پورٹیبل جیمنگ سسٹم، جدید ٹیکنالوجی والے روبوٹس، اینکر لانچر، بم ڈسپوزل آلات اور منفرد نوعیت کے آلات بھی پیش کیے۔
پاک چین دوستی واقعی ہمالیہ سے اونچی اور سمندر سے گہری ہے، جس کا ثبوت حال ہی میں کراچی میں چینی قونصلیٹ پر حملے کے باوجود بھی ہمیں دفاعی نمائش میں بڑی تعداد میں چینی کمپنیوں اور اداروں کی موجودگی کی صورت میں نظر آیا۔
نمائش میں شریک چینی نمائندوں نے آئیڈیاز 2018 کے ذریعے پوری دنیا کو ایک پلیٹ پر لانے کے لیے پاکستان کو قابل ستائش قرار دیا۔
ایک چینی شہری واودن کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان گزشتہ کئی برسوں سے آرہے ہیں، انہیں لگتا ہے کہ پاکستان اور چین کے تعلقات مستقبل میں مزید مضبوط ہوں گے کیونکہ چینی عوام پاکستان کو اپنا حقیقی دوست مانتے ہیں۔
سسین نامی ایک چینی خاتون کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان پہلی مرتبہ آئی ہیں اور نمائش میں پاکستانیوں کا جوش و جذبہ دیکھ کر حیران ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اگرچہ پاکستان کو اس وقت سیکیورٹی کے حوالے سے مسائل درپیش ہیں لیکن اس کے باوجود بھی اتنے منظم طریقے سے دفاعی نمائش کا انعقاد ایک مثال ہے۔
پولینڈ کی جانب سے بھی ڈرون طیارے، فوجی ہتھیار، سیکورٹی آلات وغیرہ نمائش کا حصہ بنے۔
اسی طرح اٹلی نے بھی اپنا مقبول Aspide 2000 میزائل اَپ گریڈ کرکے نئے ورژن میں پیش کیا، جو سپر سونک ہے اور جس کی رینج 25 کلومیٹر ہے۔
اس کے علاوہ Marte MK 2/N میزائل کے نئے ڈیزائن نے بھی سب کو خوب متاثر کیا۔ اس کا وزن 310 کلوگرام جبکہ رینج 30 کلومیٹر تک ہے۔
آئیڈیاز 2018 میں جرمنی کے بحری میزائل اور لانچرز بھی پیش کیے گئے، جن میں RIM-116c میزائل نے خاص توجہ کھینچی۔ اس کی نمائندگی کرنے والی جرمن خاتون گلیمے ہیڈی کا کہنا تھا کہ وہ پاکستانیوں کی جانب سے والہانہ استقبال دیکھ کر بے حد خوش ہیں، یہاں کہ لوگوں کو معلومات لینے میں کافی دلچسپی ہے۔
انہوں نے ہلکے پھلکے انداز میں مزید کہا کہ یہاں لوگوں کو سیلفی اور تصاویر لینے کا بھی بہت شوق ہے۔
امریکا، روس، جینیوا اور دیگر ممالک نے بھی اپنے شاندار دفاعی ہتھیاروں کو آئیڈیاز 2018 کا حصہ بنایا۔
آئیڈیاز 2018 کے حوالے سے نوجوانوں سمیت خواتین اور طلبہ نے بھی بھرپور دلچسپی دکھائی۔ اس دوران شرکاء نے نہ صرف معلومات اکٹھی کیں بلکہ ہتھیاروں کے استعمال کرنے کے طریقہ کار سے متعلق آگاہی لے کر ان کے ساتھ مختلف پوز میں خوب تصاویر بھی بنوائیں۔
پاکستان میں ہر 2 سال بعد ہونے والی اس بین الاقوامی دفاعی نمائش کا سلسلہ سال 2000 سے جاری ہے، جو پوری دنیا کو پیغام دیتی ہے کہ پاکستان پوری دنیا میں امن کا خواہاں اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پر عزم ہے اور سخت حالات میں بھی پاکستان کی بری، بحری اور فضائی افواج دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر دم تیار اور ہر طرح کی صلاحیتوں سے لیس ہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔