01 دسمبر ، 2018
آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں ورلڈ ایڈز ڈے منایا جارہا ہے، جس کا مقصد اس جان لیوا، لاعلاج مرض کے خلاف آگاہی پیدا کرنا ہے، جس کا وائرس انسان کے خون میں شامل ہوکر مدافعتی نظام کو ناکارہ کر دیتا ہے۔
اس سال ایڈز ڈے کی تھیم 'اپنا اسٹیٹس جانیے' ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں 94 لاکھ افراد ایسے ہیں جو ایڈز کے مرض میں مبتلا ہیں لیکن وہ خود اس بارے میں نہیں جانتے۔
پاکستان میں بھی ایڈز کا مرض وبائی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے اور اگر اس طرف جلد ہی توجہ نہ دی گئی تو اس پر قابو پانا مشکل ہو جائے گا۔
رقبے کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں ایڈز کے مریضوں کی تعداد تقریباً 5 ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ صوبے کی مختلف جیلوں میں موجود 71 قیدیوں میں ایڈز کا مرض پایا گیا ہے، جبکہ کوئٹہ میں 10 خواجہ سراؤں میں بھی ایڈز کے وائرس کا انکشاف ہوا ہے، اس کے علاوہ صوبے میں ایڈز کے مریضوں میں 26 بچے بھی شامل ہیں۔
بلوچستان ایڈز کنٹرول پروگرام کے تحت رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد ایک ہزار 334 ہے۔ ایڈز کے مریضوں میں سے ایک ہزار 33 مریض کوئٹہ جبکہ 301 تربت میں رجسٹرڈ ہیں۔ان میں زیادہ تر منشیات کے عادی افراد شامل ہیں، جن میں سے 911 مریضوں کو علاج معالجہ کی سہولت فراہم کی جارہی ہے۔
صوبے کے دیگر اضلاع قلعہ سیف اللہ، ژوب، شیرانی، گوادر، لورالائی، لسبیلہ، نوشکی، قلعہ عبداللہ اور پشین میں بھی ایڈزکے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ مجموعی طور پر صوبے میں ایڈز کے مریضوں میں 70 فیصد مرد اور 30 فیصد خواتین شامل ہیں۔
ایڈز کنٹرول پروگرام بلوچستان کے صوبائی مینیجر ڈاکٹر افضل زرکون نے جیو نیوز کو بتایا کہ بلوچستان میں ایڈز کی صورت حال تشویشناک ہے اور جیلوں میں بھی یہ مرض پھیل رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کوئٹہ، گڈانی، مچھ اور تربت سمیت صوبے کی دیگر جیلوں میں 4 ہزار سے زائد مریضوں کا ایچ آئی وی ٹیسٹ کیا گیا، تو ان میں سے 71 قیدیوں میں ایڈز کا مرض پایا گیا، ان قیدیوں میں زیادہ تعداد گڈانی جیل کے شامل ہیں۔
ڈاکٹر افضل زرکون کے مطابق بلوچستان میں اب تک ایڈز کا شکار ہو کر مرنے والے مریضوں کی تعداد 231 ہے، اس کے علاوہ کوئٹہ میں خواجہ سراؤں کا بھی ایچ آئی وی ٹیسٹ کیا گیا، جس کے نتیجے میں 10 خواجہ سراؤں میں ایڈز کے وائرس کا انکشاف ہوا ہے۔
محکمہ صحت کے حکام کے مطابق کوئٹہ اور تربت میں ایڈز کے طبی مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک سال سے صوبے کے تمام اضلاع میں ایڈز کی اسکریننگ کی سہولت بھی مہیا کی گئی ہے جو پہلے دستیاب نہیں تھی۔ اب وہاں بھی روزانہ یا ہر دوسرے دن اسکریننگ کے لیے مریض آتے ہیں جبکہ صوبے کے اضلاع لورالائی، گوادر، ژوب اور لسبیلہ میں ایڈز مراکز کے قیام کا منصوبہ بھی زیرغور ہے۔
ڈپٹی مینیجر ایڈز کنٹرول پروگرام ڈاکٹر داؤد اچکزئی نے جیو نیوز کو بتایا کہ ایچ آئی وی وائرس کے تیزی سے پھیلنے کی ایک بڑی وجہ لوگوں میں آگہی کی کمی اور بے احتیاطی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ منشیات کے عادی وہ افراد جو ایک انجیکشن کا بار بار استعمال کرتے ہیں، خواجہ سرا یا خواتین سیکس ورکرز، جیلوں، کوئلہ کانوں اور سمندر میں کام کرنے والے اور گڈانی شپ بریکنگ یارڈ میں کام کرنے والے وہ مزدور، جو بہت عرصے سے گھروں سے باہر ہوتے ہیں، احتیاط نہ ہونے کی وجہ سے ان میں یہ مرض زیادہ پھیل رہا ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق ایڈز کی علامات میں وزن میں تیزی سے کمی، ایک ماہ تک مسلسل بخار، شدید تھکن۔ ایک ماہ سے زیادہ متواتر خشک کھانسی اور دم گھٹنا، ایک ماہ سے زیادہ مسلسل جاری رہنے والے دست، بغلوں اور ٹانگوں کے جوڑ یا گلے میں غدود کی سوجن، یادداشت کی کمزوری، ڈپریشن اور دوسری اعصابی بیماریاں شامل ہیں۔
ایڈز کنٹرول پروگرام کے حکام کے مطابق بلوچستان میں اب تک ایڈز کے 231 مریض انتقال کرچکے ہیں۔
ایڈز سے بچنے کے لیے آگہی کے ساتھ ساتھ احتیاط کی بھی ضرورت ہے۔ خاص طور پر انتقالِ خون، ایک سرنج کے بار بار استعمال، غیر محتاط جنسی تعلقات اور حجامت اور جراحی کے متاثرہ آلات کے استعمال میں احتیاط ضرور کرنی چاہیے۔