Time 10 دسمبر ، 2018
پاکستان

ایف اے ٹی ایف اجلاس: ایف بی آر، اسٹیٹ بینک، ایف آئی اے کی عدم تعاون کی شکایات

— فوٹو:فائل 

اسلام آباد: وزرات خزانہ کے ایف اے ٹی ایف کے ساتھ ہونے والے اجلاس کی اندرونی کہانی سامنےآگئی جس کے مطابق دورانِ اجلاس ایف بی آر، اسٹیٹ بینک، ایف آئی اے اور فنانشل مانیٹرنگ یونٹس نے ایک دوسرے کے خلاف تعاون نہ کرنیکی شکایات کیں۔

ذرائع کے مطابق گزشتہ ہفتے وزیر خزانہ اسدعمر کی زیر صدارت فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ( ایف اے ٹی ایف) کے اجلاس میں مختلف رپورٹس پیش کی گئیں۔ 

ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس میں پیش کی جانے والی دستاویز کے مطابق بینکوں کے سربراہوں کی تعیناتی کا معیار درست نہیں کیوں کہ ایسے افراد کو بینکوں کا سربراہ تعینات کیا جاتا ہے جن کا بینکوں کے کنٹرول کا ریکارڈ درست نہیں۔

دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) منی لانڈرنگ کیس پکڑے جانے پر تحقیقاتی اداروں کو نہیں بھجواتا لہٰذا ایف آئی اے، اسٹیٹ بینک اور اینٹی منی لانڈرنگ میں تبدیلیاں لائی جائیں۔

دستاویز میں کہا گیا ہے کہ اسٹیٹ بینک کو نجی بینکوں نے ہزار سے زیادہ مشکوک ترسیلات کے کیس بجھوائے جس میں سندھ، پنجاب اور کے پی میں 284 جعلی اکاؤنٹس سے مشکوک ترسیلات کی نشاندہی ہوئی جن سے 218 ارب روپے کی مشکوک ترسیلات بھیجی گئیں۔

دستاویز کے مطابق کراچی سے اومنی گروپ نے 235 اکاؤنٹس کے ذریعے 94 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی جب کہ پنجاب میں بڑے کمرشل بینک کے 25 اکاؤنٹس سے 73 ارب 70 کروڑ روپے اور کے پی سے 25 اکاؤنٹس کے ذریعے 49 ارب روپے کی منی لانڈرنگ ہوئی۔

اجلاس میں ایف بی آر، اسٹیٹ بینک، ایف آئی اے اور فنانشل مانیٹرنگ یونٹس نے ایک دوسرے کے خلاف تعاون نہ کرنیکی شکایتیں کیں جب کہ اجلاس کے شرکاء نے ایف ایم یو کے دفاتر کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے کا مطالبہ کیا۔

مزید خبریں :