11 دسمبر ، 2018
بلوچستان کو مہرگڑھ کی قدیم تہذیب کا مسکن ہونے کا اعزاز حاصل ہے، جو دریائے بولان کے کنارے آباد وہ گاؤں ہے جہاں 1974 میں فرانسیسی ماہرینِ آثارِ قدیمہ کو کھدائی کے دوران ایک قدیم تہذیب کے آثار ملے تھے۔
آثارِ قدیمہ کے ماہر اس فرانسیسی جوڑے کو تقریباً 7 ہزار سال قدیم تہذیب کو آشکار کرنے میں 10 سال لگے اور اس حوالے سے کھدائی کا سلسلہ 1984 تک جاری رہا۔
یہ آثار قدیمہ نہ صرف بلوچستان بلکہ جنوبی ایشیاء کے نئے ہجری دور اور پتھر کے زمانے کے سب سے قدیم آثار ہیں۔
اس بناء پر دریائے بولان کے کنارے اس قدیم اور گمشدہ تہذیب کےآثار کی دریافت انسانی تاریخ میں ایک اہم باب کا اضافہ قرار دیا جاسکتا ہے، تاہم ماہرین آثار قدیمہ بلوچستان کے مطابق مہرگڑھ سے دریافت ہونے والی قدیم تہذیب ابھی مکمل طور پر آشکار نہیں ہوئی اور اب بھی اس پر کافی کام ہونا باقی ہے۔
بہرحال یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ اتنی قدیم تہذیب و تمدن کے حامل مہرگڑھ کو اب تک قومی سطح اور نہ ہی بین الاقوامی سطح پر اتنی پزیرائی مل سکی جس کی یہ مستحق تھی۔
یہی وجہ ہے کہ صوبے کی اس قدیم تہذیب کے تحفظ اور اسے اجاگر کرنے کے لیے تعلیم، صحت، کمیونٹی انفراسٹرکچر اور قدرتی آفات سے بچاؤ سمیت مختلف سماجی حوالوں سے خدمات سرانجام دینے والے غیر سرکاری ادارے 'ترقی فاؤنڈیشن' نے مہرگڑھ کی تہذیب کے عنوان سے ایک آگہی واک کا اہتمام کیا۔
یہ آگہی واک اس لیے تاریخی اہمیت کی حامل رہی کیونکہ اس سے پہلے کوئٹہ میں اتنی طویل واک کی نظیر نہیں ملتی۔ 15 کلومیٹر سے زائد طویل فاصلے پر محیط واک میں 5 سو سے زائد افراد نے شرکت کی، جن میں زیادہ تر مختلف تعلیمی اداروں سے تعلق رکھنے والے طلباء و طالبات کےعلاوہ گرلز گائیڈز، بوائے اسکاؤٹس اور سول سوسائٹی کے نمائندے شامل تھے۔
مہرگڑھ کی تہذیب کے حوالے سے واک کا افتتاح پہاڑوں سے گھری وادی ہنہ میں وائس چانسلر سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی کی پروفیسر ڈاکٹر رخسانہ جبیں نے کیا۔
اس موقع پر کبوتر اور رنگا رنگ غبارے فضاء میں چھوڑے گئے اور بلوچستان پولیس کے بینڈ نے شاندار پرفارمنس کا مظاہرہ بھی کیا۔
واک کے شرکاء مختلف سڑکوں سے گزرتے 6 گھنٹے میں ایم پی اے ہاسٹل پہنچے۔وادی ہنہ سے شہر کے وسطی علاقے ایم پی اے ہاسٹل تک کا 15 کلومیٹر پر محیط سارا سفر شرکاء کی آپس میں بات چیت اور مختلف سرگرمیاں کرتے گزرا۔
اس دوران روایتی پشتو رقص اتن اور بلوچی چاپ کا خوبصورت مظاہرہ بھی جاری رہا، دوسری جانب اختتامی مرحلے پر گورنر بلوچستان جسٹس ریٹائرڈ امان اللہ خان یاسین زئی نے بھی واک میں شرکت کی اور کچھ دور تک واک میں شامل رہے۔
گورنر بلوچستان نے مہرگڑھ کے حوالے سے واک کے انعقاد کو بےحد سراہا اور منتظمین کو مبارکباد دی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس قدیم تہذیب کو اجاگر کیا جانا چاہیے اور اس مقصد کے لیے موثر اقدامات کی ضرورت ہے، انہوں نے مہرگڑھ کی تہذیب اور ورثہ پر مشتمل علیحدہ میوزیم کے قیام پر بھی زور دیا۔
واک کےشرکاء اس آگہی واک کا حصہ بننے پر پُرجوش اور خوش دکھائی دیے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک بامقصد سرگرمی میں حصہ لےکر بہت خوش ہیں۔شرکاء نے مزید کہا کہ مہرگڑھ کی تہذیب کے بارے میں انہیں اتنا علم نہیں تھا، جتنا اس میں شامل ہوکر اس کے بارے میں ادراک ہوا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ترقی فاؤنڈیشن نے ایک زبردست سرگرمی کا انعقاد کیا، اب یہ حکومت اور خاص طور پر دیگر متعلقہ اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس قدیم تہذیب کے تحفظ اور اسے اجاگر کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں۔
اس واک کے منتظم امجد رشید کا کہنا تھا کہ 'ہم نے مہرگڑھ کی تہذیب کو اجاگر کرنے کا بیڑہ اٹھایا اور یہ واک اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ہمارا مقصد ہے کہ لوگوں کو اس حوالے سے زیادہ سے زیادہ آگہی دی جائے تاکہ وہ جان سکیں کہ وہ کتنی قدیم تہذیب کے امین ہیں اور اس کی کیا اہمیت ہے'۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ تاریخ کے طالب علموں اور محققین کو مہرگڑھ کے علاقے تک آسان رسائی دی جانی چاہیے تاکہ وہ اس پر مزید کام کرسکیں، اس خطے اور قدیم ورثے کے امین ہونے کی حیثیت سے ہمارا فرض ہے کہ اس سے متعلق جدید دنیا کو آگاہ کیا جائے۔
انہوں نے بتایا کہ بدقسمتی سے اس عظیم ورثے کی دریافت کے بعد آج تک اس حوالے سے مزید تحقیق نہیں کی گئی، یہ واک اس تہذیب کو نہ صرف اجاگر کرنے بلکہ اس حوالے سے مزید تحقیق اور پورے خطے کے لیے صوبائی، ملکی اور بین الاقوامی سطح پر نئی راہیں متعین کرےگی۔
امجد رشید کا مزید کہنا تھا کہ وہ اس واک کے بعد اب مہرگڑھ کےعلاقے تک ’ٹرین مارچ‘ کا پروگرام بنارہے ہیں تاہم اس کے لیے صوبائی اور وفاقی حکومت کاتعاون درکار ہوگا۔