05 اگست ، 2012
ملتان… چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ کوئی میلی آنکھ عدلیہ کی حکمرانی کو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ آئین بنانے والے عدلیہ کی آزادی اور قانون کی حکمرانی کے بنیادی اصول مدنظر رکھیں۔ ہم پوری تندہی کے ساتھ فراہمی انصاف کے مقدس فریضہ کو جاری رکھیں گے۔ ابھی بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔وکلاء کا تعاون امید کی کرن ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے لاہور ہائیکورٹ بار ملتان کے عہدیداروں کی تقریب حلف برداری سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ ایک دوسرے سے تعاون اداروں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ بار اور بنچ کا تعاون برقرار رہنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ نے بحالی کے بعد مقدمات کے تصفیے کیلئے خاطر اقدامات کئے ہیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ انصاف کی فرہمی اتنا عظیم اور مقدس کام ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس ذمہ داری کیلئے پیغمبر بھیجے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ سستے اور فودی انصاف کو یقینی بنائے۔ اسی مقصد کے حصول کیلئے پورا نظام مرتب کیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے بار کے نومنتخب عہدیداروں کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ بار کے منتخب نمائندوں پر عام اراکین بار سے زیادہ اضافی ذمہ داریاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بار کے نمائندگان کا حلف محض خالی الفاظ نہیں بلکہ یہ انصاف کی فراہمی کیلئے ایک عہد ظاہر کرتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ حلف کا تقدس برقرار رکھا جائے گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ نے مقدمات کے تصفیے کے سلسلہ میں خاطر خواہ اقدامات کئے۔ انصاف کی فراہمی میں تاخیر انصاف نہ دینے کے برابر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس بات کا دعویٰ تو نہیں کرتے کہ ہم نے جس کی خواہش کی وہ حاصل کرلیا لیکن نتائج حوصلہ افزا ہیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بتایا کہ اگرچہ جج صاحبان ، وکلا ، عدالتی عملہ اور دوسرے عہدیداران کی ان تھک کوششوں کے نتیجہ میں بہت کچھ حاصل ہوا ہے تاہم اپنے مشن کی کامیابی کے سلسلہ میں ہم آپ سے مزید تعاون کے متمنی ہیں۔ اس کو مزید بہتر اور موثر بنانے کیلئے سفارشات کو ہمیشہ خوش آمدید کہا جائے گا۔ قبل ازیں سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر جج مسٹر جسٹس شاکر الل? جان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج جس طرح کا استقبال کیا گیا وہ زندگی میں کبھی نہیں دیکھا گیا۔ انہوں نے کہا کہ فاضل چیف جسٹس پاکستان نے آئین و قانون کی بالادستی کے ساتھ غریبوں کی مدد کی اور انہیں سننے والے آج یہاں موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 40 سال اس شعبے میں گزار کر وہ ریٹائر ہو رہاہوں اور میری خواہش ہے کہ اپنے تجربات نوجوان وکلا کے ساتھ شیئر کروں۔ مسٹر جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہا کہ 2007ء میں جو انکار کیا گیا اور وکلا، میڈیا و سول سوسائٹی سڑکوں پر آ گئی تو یہ بھی اپنے حلف سے وفاداری تھی۔ انہوں نے کہا کہ ججز اور وکلاء کے حلف میں آئین کی پاسداری اور انصاف کی فراہمی مشترک ہے۔ انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس پاکستان کی قیادت بے مثال ہے اور فاضل چیف جسٹس کی لیڈر شپ ہر طرح سے قائدانہ اور عمل کرنے والی ہے اور اس صلاحیت سے جلد اور بہتر انصاف فراہم ہوتا ہے۔دریں اثناء ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر محمد محمود اشرف خان نے چیف جسٹس آف پاکستان کی ملتان آمد کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ وکلا اور عوام نے آزاد عدلیہ کا جو خواب دیکھا وہ آپ کی صورت میں پورا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ جس ملک میں حکمران لٹیرے اور ڈاکو بن چکے ہوں ایسے حالات میں ایک ایسا ادارہ ہونا چاہئے جو عوام کا تحفظ کرسکے اور سپریم کورٹ فاضل چیف جسٹس کی قیادت میں اس فرض کو نبھار ہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ توہین عدالت کے کالے قانون کے خاتمے سے آئین و قانون کی بالادستی قائم کی ہے اور پارلیمنٹ کو اپنی حدود دکھائی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فاضل چیف جسٹس کی خدمات کے اعتراف میں ہائیکورٹ بار کی عمارت کا نام ”ایوان افتخار کمپلیکس“ رکھنے کا فیصلہ کیا۔ جس کے افتتاح کے بعد یہ عمارت ہمارے لئے باعث افتخار ہوگی۔ انہوں نے مسائل حل کرنے پر فاضل چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے شکریہ ادا کیا۔