پاکستان
Time 11 جنوری ، 2019

سپریم کورٹ کا اصغر خان کیس بند نہ کرنے کا فیصلہ



اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے اصغر خان کیس کو بند نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے آج اصغر خان عملدرآمد کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 'ایف آئی اے نے فائل بند کرنے کی استدعا کی ہے، لیکن ہم کیسے عدالتی حکم کو ختم کر دیں'۔

چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ 'اصغر خان نے اتنی بڑی کوشش کی تھی، لیکن جب عملدرآمد کا وقت آیا تو ایف آئی اے نے ہاتھ کھڑے کر دیئے، ہم اصغر خان کی کوشش رائیگاں نہیں جانے دیں گے اور اس کیس کی مزید تحقیقات کرائیں گے'۔

واضح رہے کہ مذکورہ کیس کی 29 دسمبر 2018 کو ہونے والی سماعت کے دوران وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے سپریم کورٹ سے اصغر خان کیس کی فائل بند کرنے کی سفارش کی تھی، تاہم گذشتہ روز مرحوم اصغر خان کے لواحقین نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کراتے ہوئے درخواست کی کہ یہ کیس بند نہیں ہونا چاہیے۔

آج سماعت کے دوران جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ 'ہم ایف آئی اے سے جواب طلب کریں گے جبکہ کابینہ سے بھی جواب مانگیں گے کیونکہ کچھ افراد کے مقدمات کابینہ کو دیئے گئے تھے'۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ 'ہر ادارہ سپریم کورٹ کو جوابدہ ہے'۔

اس موقع پر ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ 'ایف آئی اے کا مینڈیڈیٹ فوجداری تحقیقات کا تھا، جس نے 10 سیاستدانوں سے تحقیقات کرنا تھیں، جن میں سے 6 کا انتقال ہوچکا ہے'۔

ڈی جی ایف آئی اے نے مزید کہا کہ 'چالان کے لیے ضروری ہے کہ شواہد ہوں'۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ 'کم از کم اس کیس میں اصغر خان کی فیملی سے بھی پوچھ لیتے'۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ 'عدالتی فیصلے کے ایک ایک صفحے سے ثابت ہوا کہ یہ اسکینڈل ہوا ہے'۔

ساتھ ہی چیف جسٹس نے اصغر خان کے اہلخانہ کے وکیل ایڈووکیٹ سلمان اکرم راجہ صاحب سے کہا کہ 'آپ عدالت کی معاونت کریں کہ کیس کو کیسے آگے بڑھایا جائے'۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 'ایک فیصلہ آیا اور اب عملدرآمد کے وقت ایسا ہو رہا ہے، کچھ افراد کو اس معاملے سے علیحدہ کرنے کی تجویز تھی'۔

جس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ 'ایسا نہیں ہونا چاہیے جبکہ ایک شخص کہہ رہا ہے کہ ہاں میں نے رقم تقسیم کی'۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 'اس کے بعد پھر کیا رہ جاتا ہے؟'

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیئے کہ 'کیس بند کرنے کے معاملے میں اصغر خان فیملی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا، اگر ایف آئی  اے کے پاس اختیارات نہیں تو دوسرے ادارے سے تحقیقات کرالیتے ہیں'۔

جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ 'جب فیصلہ آیا تو میں اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری سے ملا اور کہا کہ اتنا بڑا فیصلہ کیا کہ اب عدالت کچھ نہ کرے تو یہی کافی ہے'۔

سلمان اکرم راجا نے اس موقع پر کہا کہ 'اصغر خان اور آسیہ بی بی کیس کے دونوں فیصلے تاریخ ساز ہیں'۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'اصغر خان کیس میں عدالت با ضابطہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے'۔

چیف جسٹس نے کہا کہ 'اصغر خان کیس میں فوجیوں کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہو رہا ہے جبکہ سول افراد کے خلاف الگ ٹرائل ہو رہا ہے، الگ الگ تحقیقات سے کیسے حتمی نتیجے تک پہنچیں گے؟'

جسٹس ثاقب نثار نے مزید کہا کہ 'ہمیں نہیں پتہ کہ ملٹری والے کیا کارروائی کر رہے ہیں، کیوں نہ ان سے بھی رپورٹ طلب کر لیں؟'

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ 'ایسا نہ سمجھیں کہ فوج والے عدالتی دائرہ اختیار سے باہر ہیں، میں بطور چیف جسٹس ان کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ یہ سب ہمارے اختیار میں ہے'۔

سماعت کے آخر میں سپریم کورٹ نے سیکریٹری دفاع کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ 'سیکرٹری دفاع بتائیں جن آرمی افسران کا معاملہ بھیجا گیا تھا وہ تحقیقات کہاں تک پہنچی؟'

دوسری جانب عدالت عظمیٰ نے ایف آئی اے کی طرف سے اخذ کیے گئے نتائج اور وجوہات پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اصغر خان کے ورثاء کی درخواست پر ایف آئی اے سے جواب طلب کر لیا۔

اس کے ساتھ ہی سماعت 25 جنوری تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔

اصغر خان کیس کا پس منظر

1990ء کی انتخابی مہم کے حوالے سے یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ اس انتخابی مہم کے دوران اسلامی جمہوری اتحاد میں شامل جماعتوں اور سیاسی رہنماؤں میں پیسے تقسیم کیے گئے۔

خفیہ ایجنسی انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی نے اپنے ایک بیان حلفی میں دعویٰ کیا تھا کہ سیاسی رہنماؤں میں یہ پیسے مہران بینک کے سابق سربراہ یونس حبیب سے لے کر بانٹے گئے تھے۔

پیسے لینے والوں میں غلام مصطفیٰ کھر، حفیظ پیرزادہ، سرور چیمہ، معراج خالد اور دیگر رہنماؤں کے ساتھ ساتھ میاں نواز شریف کا نام بھی سامنے آیا تھا۔

اس معاملے پر ایئر فورس کے سابق سربراہ اصغر خان مرحوم نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، یہ کیس پاکستان کی عدالتی تاریخ میں اصغر خان کیس کے نام سے مشہور ہے۔

اصغر خان کیس میں یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ پیسے بانٹنے کا یہ سارا عمل اُس وقت کے صدر غلام اسحاق خان اور دیگر قیادت کے بھی علم میں تھا۔

سپریم کورٹ نے 2012 میں اس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے اسلامی جمہوری اتحاد کی تشکیل کے لیے مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف سمیت دیگر سیاست دانوں میں رقوم کی تقسیم اور 1990 کے انتخابات میں دھاندلی کی ذمہ داری مرزا اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درنی پر عائد کی تھی۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں مرزا اسلم بیگ اور اسد درانی کے خلاف کارروائی کا بھی حکم دیا تھا۔

مرزا اسلم بیگ اور اسد درانی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں ہی نظرثانی اپیل دائر کر رکھی تھی جسے عدالت مسترد کرچکی ہے۔

سپریم کورٹ نے گذشتہ برس مئی میں وفاقی حکومت کو اصغر خان کیس سے متعلق عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ وفاقی حکومت اور ایف آئی اے اصغر خان کیس کے فیصلے کی روشنی میں قانون کے مطابق کارروائی کریں۔

مزید خبریں :