04 فروری ، 2019
کوئٹہ: پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج کینسر کا عالمی دن منایا جارہا ہے اور اس حوالے سے آگہی بیدار کرنے کے لیے مختلف پروگرامز اور سیمینارز کا انعقاد بھی کیا گیا ہے، لیکن رقبے کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں سرطان کے مریضوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوجاتا رہا ہے۔
صوبے میں سرطان کے مریضوں کے علاج کے لیے باقاعدہ اسپتال نہ ہونے کی وجہ سے اس مرض میں مبتلا افراد کو مشکلات کا سامنا ہے۔ اگرچہ کینسر کے اسپتال کے قیام کے لیے موجودہ صوبائی پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) میں 2 ارب روپے رکھے گئے، لیکن تاحال بات اس سے آگے بڑھ نہ سکی۔
بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں مرد، خواتین اور نوجوانوں سمیت پھول جیسے بچے بھی سرطان کی مختلف اقسام میں مبتلا ہو رہے ہیں، ان میں مردوں میں سب سے زیادہ سانس کی نالی کا کینسر عام ہے جبکہ خواتین میں چھاتی کا کینسر اور نوجوانوں اور بچوں میں خون کا کینسر بڑھنے لگا ہے، لیکن بدقسمتی سے اس خطرناک مرض کے علاج کے لیے بلوچستان میں مناسب سہولیات دستیاب نہیں بلکہ اب تک صوبے میں کینسر کے علاج کے لیے باقاعدہ اسپتال تک قائم نہیں کیا گیا، جس کی وجہ سے مریض یا تو دیگر صوبوں کا رخ کرتے ہیں یا علاج نہ ہونے کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
کوئٹہ کے بولان میڈیکل کمپلکس اسپتال میں 40 بستروں پر مشتمل کینسر وارڈ عارضی طور پر قائم کیا گیا ہے، جہاں محدود پیمانے پر سرطان کے مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے، اس وارڈ میں ہر سال 15 سو سے 2 ہزار کے قریب کینسر میں مبتلا مرد، خواتین اور بچے علاج کے لیے آتے ہیں، لیکن متعلقہ محکمے کی غیر سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ کینسر کے وارڈ کا سالانہ بجٹ صرف 16 لاکھ روپے ہے جبکہ صرف ایک مریض کے علاج کے لیے اس سے زیادہ اخراجات آتے ہیں۔ وارڈ حکام کے مطابق ادویات اور فنڈز میں کمی کے باعث انہیں مریضوں کے علاج کے لیے مشکلات پیش آتی ہیں اور مختلف ڈونرز کے ذریعے کینسر کے غریب مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے۔
گزشتہ سال بولان میڈیکل کمپلکس کوئٹہ میں کینسر کے مرض میں مبتلا زیر علاج 30 مریض انتقال کر چکے ہیں جبکہ ذرائع کے مطابق صوبے بھر میں انتقال کرجانے والوں کی تعداد تقریباً 150 کے قریب ہے۔ صوبے کے دور دراز کے علاقوں میں کینسر کے ایسے مریض بھی ہوتے ہیں جو مرض کی تشخیص ہونے سے قبل ہی مر جاتے ہیں یا غربت کی وجہ سے علاج نہیں کرپاتے اور موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
بولان میڈیکل کمپلکس اسپتال کے کینسر وارڈ کے انچارج ڈاکٹر زاہد محمود خان نے جیو نیوز کو بتایا کہ بلوچستان میں سرطان کے مریضوں کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس مرض کی روک تھام کی ضرورت ہے اور اگر علاج کے لیے مشینری، ضروری ادویات اور مناسب سہولیات کا انتظام نہ کیا گیا تو یہ جان لیوا بیماری زیادہ پھیل جائے گی اور صورتحال مزید گھمبیر ہونے کا خدشہ ہے۔
بلوچستان میں کینسر اسپتال کے قیام کی ضرورت کے پیش نظر صوبائی حکومت کی 19-2018 کے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام میں 2 ارب روپے شامل کیے گئے، لیکن یہ منصوبہ تاخیر کا شکار ہے بلکہ ابھی تک جگہ کا تعین تک نہیں ہوسکا ہے۔
20 دسمبر 2018 کو سینئر سیکریٹری بورڈ آف ریوینیو بلوچستان کی جانب سے ڈپٹی کمشنر کوئٹہ کو ایک درخواست میں کینسر اسپتال کے قیام کے حوالے سے کہا گیا۔ درخواست کے مطابق، 'محکمہ صحت بلوچستان کی جانب سے اسپتال کے لیے 23 ایکڑ زمین کی الاٹمنٹ کے لیے ایک سمری بھجوائی گئی تھی لیکن یہ منصوبہ کہیں اور منتقل ہوگیا ہے، لہذا مجوزہ زمین کے موجودہ اسٹیٹس کے حوالے سے بتایا جائے اور زمین کی لینڈ لیز پالیسی کی تفصیل سے بھی آگاہ کیا جائے'۔
کینسر اسپتال کے قیام کے حوالے سے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کہتے ہیں کہ وفاقی حکومت کے تعاون سے صوبے میں کینسر اسپتال بنایا جائے گا، ان کا کہنا تھا کہ صوبائی پی ایس ڈی پی میں کینسر اسپتال کی تعمیر کا منصوبہ شامل ہے، اس کے لیے وفاقی حکومت ٹیکنیکل سپورٹ کرے گی اور دونوں حکومتیں مل کر اس منصوبے کا آغاز کریں گی۔
بلوچستان بھر کے عوام اور سول سوسائٹی سمیت تمام شعبوں اور طبقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ صوبے میں کم سے کم کینسر کے علاج کے لیے ایک اسپتال کا قیام ناگزیرہے، سب کا وفاقی اور صوبائی حکومت سے یہی مطالبہ ہے کہ بلوچستان میں کینسر اسپتال کا قیام یقنی بنایا جائے۔
دوسری جانب طبی ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ کینسر کے مرض سے بچنے کے لیے لوگ احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ سگریٹ نوشی، پان،گٹکا، چھالیہ، سگار، بازار کی تلی ہوئی اشیاء کھانے سے پرہیز کریں۔ روزانہ ورزش کو معمول بنائیں اور بچوں کو بھی بازاری کھانوں اور فاسٹ فوڈ سے دور رکھیں۔