21 فروری ، 2019
مادری زبانیں قوموں کی شناخت کے ساتھ ساتھ ثقافت اور روایات کے اظہار کا بڑا ذریعہ ہوتی ہیں، یہ زبانیں قدیم تہذیبی ورثہ ہونے کے ساتھ قوموں کے تحفظ اور بقا میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
بلوچستان پاکستان کا ایسا منفرد صوبہ ہے جہاں بیک وقت آٹھ مختلف زبانیں بولی اور سمجھی جاتی ہیں۔ صوبے میں اردو تو رابطےکی زبان ہے لیکن سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانیں بلوچی اور براہوی ہیں۔ حالیہ مردم شماری کے مطابق صوبے کی کل آبادی کا 54.76 فیصد افراد یہ دونوں زبانیں بولتے ہیں۔
اس کے بعد پشتو 29.64 فیصد آبادی کی زبان ہے جب کہ فارسی، سندھی، سرائیکی اور پنجابی زبانیں بھی اس صوبے میں بولی جاتی ہیں۔
بلوچستان میں مادری زبانوں کی ترقی اور ترویج کے لیے مختلف ادارے کام کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے بلوچی اکیڈیمی کے انتظامی امور کے شعبہ کے انچارج ناصر بلوچ کا کہنا تھا کہ بلوچی اکیڈیمی نے اب تک تقریبا 580 کتب شایع کرائی ہیں جن میں اردو کے علاوہ افریقی اور انگریزی ادب کے بلوچی زبان میں تراجم بھی شامل ہیں۔ ایسا اس لیےکیا گیا ہے تاکہ بلوچی سمجھنے اور بولنے والے افراد ان زبانوں کے ادب سے مستفید ہوسکیں۔
اس حوالے سے مقامی ادیب اور نجی لائبریری کے مالک عبدالخالق کا کہنا تھا کہ مادری زبانیں اور ان کے ادب و تاریخ کے تحفظ اور ترویج کے لیے ریاست کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اگر ان کی سرپرستی نہیں ہوگی یا یہ زبانیں لکھنے پڑھنے میں یا کالج اور اسکولوں میں بطور میڈیم استعمال نہیں ہوں گی تو یہ زبانیں اپنا اثر و وجود کھوتی چلی جائیں گی۔
بلوچستان میں مادری زبانیں نصاب میں اضافی مضمون کی حیثیت سے شامل کیے جانے کا قانون پہلے ہی منظور ہوچکا ہے۔ اس قانون پر کافی حد تک عملدرآمد بھی جاری ہے۔
بلوچستان حکومت کے ایک وزیر زمرک خان اچکزئی کامادری زبانوں کے دن کے حوالے سے کہنا ہے کہ ہماری کوشش ہےکہ اپنی تمام مادری زبانوں کو ترقی دیں اور اسکولوں میں پرائمری کی سطح پر نصاب میں کم از کم ایک کتاب مادری زبان میں ہو تاکہ بچوں میں اگر کوئی پشتو، بلوچی، فارسی، سرائیکی، پنجابی اور سندھی بولنے والا ہو تو اسے سمجھنے میں آسانی ہو۔ انہوں نے بتایا کہ اس حوالے سے صوبائی حکومت ایک پالیسی پر غور کررہی ہے۔
دوسری جانب مادری زبانوں کے عالمی دن کی مناسبت سے گورنر بلوچستان امان اللہ خان یاسین زئی اور وزیراعلی جام کمال خان نے علیحدہ پیغامات بھی جاری کیے ہیں۔
وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کا اس موقع پر اپنے پیغام میں کہنا تھا کہ مادری زبان نہ صرف اس گلوبل ویلج میں انسان کی قومی شناخت ہے بلکہ یہ تہذیب و تمدن اور ثقافت کے اظہار کا بہترین ذریعہ بھی ہے۔
وزیراعلی کا یہ بھی کہنا تھا کہ مادری زبان میں تعلیم کا حصول انسان کا بنیادی حق ہے جس کی ضمانت اقوام متحدہ کا چارٹر بھی دیتا ہے اور جسے نصاب کا حصہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، اس پر عمل درآمد سے بچوں کی سمجھ میں اضافہ ہوگا اور وہ بہتر طریقے سے اپنے خیالات کا اظہار مادری زبان میں کرسکیں گے۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ مادری زبان میں تعلیم کی فراہمی سے بچوں کو سمجھنے، جانچنے اور پرکھنے میں آسانی ہوگی اور قیمتی وقت، توانائی اور پیسے کا ضیاع بھی نہیں ہوگا۔
اس حوالے سےگورنر بلوچستان کا اپنے پیغام میں کہا کہ مادری زبان میں تعلیم کی فراہمی سے نہ صرف بچوں کی پوشیدہ تخلیقی صلاحیتوں میں نکھار پیدا ہوتا ہے بلکہ اس سے خود زبان کی ترویج بھی ہوتی ہے ۔
گورنر بلوچستان کا مزید کہنا تھا کہ مادری زبان اس گلوبل ویلج میں انسان کی قومی شناخت کے ساتھ ساتھ تہذیب و تمدن کے اظہار کا بہترین ذریعہ ہے اور پاکستان میں بلوچستان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس صوبے میں سب سے زیادہ زبانیں بولی اور سمجھی جاتی ہیں ۔
انہوں نے بتایا کہ بلوچستان میں بولی جانے والی زبانیں پشتو، بلوچی، براہوی یا ہزارگی وغیرہ عام بول چال کی زبانیں نہیں بلکہ یہ صدیوں پر محیط تاریخ، ثقافت اور کئی نسلوں کی گراں قدر خدمات و قربانیوں کی عکاس بھی ہیں اور ان سے اپنے قومی ہیروز اور اکابرین سے اپنائیت بھی پیدا ہوتی ہے۔
مادری زبانوں کےحوالے سے یہ بات برملا کہی جاسکتی ہے کہ ان کا کسی بھی علاقے اور خطے میں محبت، ہم آہنگی اور بھائی چارے کے ساتھ ساتھ ترقی، امن اور مفاہمت کے فروغ میں اہم کردار ہے اور یہی اِس سال مادری زبانوں کے دن کا عنوان بھی ہے ۔