28 مارچ ، 2019
ملک کے سب سے بڑے اور مصروف ترین جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی ٹرمینل بلڈنگ انسانی جانوں کے لیے خطرہ بن گئی۔
کراچی کا جناح ٹرمینل 7 منزلوں اور وسیع تہہ خانے پر مشتمل ہے۔ اس عالی شان عمارت میں شہری ہوا بازی سے متعلق اداروں کے دفاتر ہیں جہاں ہر وقت سیکڑوں ملازمین اور ہزاروں مسافر موجود ہوتے ہیں۔
جناح ٹرمینل کی مختلف منزلوں پر آنے جانے کے لیے عموماً لفٹ استعمال ہوتی ہے، سیڑھیاں بھی ہیں لیکن ان کا اصل استعمال ہنگامی حالت میں ہوتا ہے کیونکہ ہنگامی حالت میں لفٹس بند کر دی جاتی ہیں۔
جناح ٹرمینل کمپلکس کے انٹرنیشنل اور ڈومیسٹک ٹرمینلز کے لیے ہنگامی منصوبہ یہ ہے کہ زلزلہ یا آگ لگنے کی صورت میں عمارت کے اگلے حصے میں موجود افراد جان بچانے کے لیے کار پارکنگ کی جانب بھاگیں گے جبکہ عمارت کے پچھلے حصے، سیٹلائٹ ایریا اور لاؤنچز میں موجود مسافر اور اسٹاف رن وے کی جانب اپرن ایریا میں جمع ہوں گے۔
لیکن اس منصوبے کے برخلاف جان بچانے کے لیے مخصوص تقریباً تمام ہی راستے بند ہیں، ڈومسٹک سی آئی پی لاؤنچ اور لیول 4 اور 5 سے آنے والی سیڑھیاں لوہے کی گرل اور تالا لگا کر بند کر دی گئی ہیں یعنی ہنگامی حالت میں باہر نکلنے کا راستہ ہی بند ہے۔
زیرو لیول سے لیول ون پر آنے اور وہاں سے اپرن پر جانے کا راستہ بھی بند ہے، بیک وقت تین چار پروازوں کے ہزاروں مسافر موجود ہوں تو ہنگامی حالت میں ان کی مدد اور بچاؤ کے لیے کوئی جگہ دستیاب نہیں ہے۔
ریستوران، وزیٹرز گیلری اور ویسٹ ڈومیسٹک سے لیول ٹو کا راستہ اور وہاں سے اسمبلی ایریا تک جانے کا راستہ بھی بند ہے۔ اس کے علاوہ انٹرنیشنل ارائیول کے راستے میں بھی تالا لگا ہوا ہے۔
جناح ٹرمینل میں صرف سامنے کی جانب چند راستے کھلے ہیں لیکن مکڑی کے جالوں سے اٹے راستوں میں نہ روشنی ہے اور نہ رہنمائی کا کوئی انتظام موجود ہے۔
جناح ٹرمینل کے نیچے تہہ خانہ اور سرنگوں کا ایک وسیع نظام ہے۔ پانی اور بجلی سمیت تمام یوٹیلیٹیز کی فراہمی اور ایرکنڈیشن کا سارا نظام یہیں تہہ خانے میں موجود ہے۔
سینکڑوں ملازمین زیر زمین رہ کر کام کرتے ہیں لیکن خوفناک بات یہ کہ ہنگامی حالت میں باہر نکلنے کے راستے تالے لگا کر نہیں بلکہ ویلڈنگ کر کے سیل کر دیئے گئے ہیں، کسی حادثے کی صورت میں تہہ خانے میں موجود لوگ مدد پہنچنے سے پہلے ہی دم گھٹ کر ختم ہو سکتے ہیں۔
اور تو اور جناح ٹرمینل میں آگ بجھانے کے لیے لگے تقریباً تمام فائر کیبنٹس پر بھی تالے لگے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے ہنگامی حالت میں استعمال کے راستے بند رکھنا قانون کی خلاف ورزی ہے۔
سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ہنگامی حالت میں باہر نکلنے کے راستے سیکورٹی وجوہات کی بناء پر بند ہیں تاہم اس کے لیے سی اے اے سے مشاورت نہیں کی گئی اور اس بارے میں لکھے گئے خطوط کا جواب بھی نہیں دیا گیا۔
سول ایوی ایشن اتھارٹی کے چیف فائر آفیسر سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے مؤقف دینے سے انکار کر دیا۔