بلاگ
Time 04 اپریل ، 2019

سیاست سے سولی تک: بھٹو خاندان کی کچھ یادداشتیں

سابق وزیراعظم اور پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو۔ فوٹو: فائل

اُس صبح، میں لاڑکانہ میں اپنی نانی کے لیے پان خرید رہا تھا جب توفیق بھائی نے اپنے ریڈیو سیٹ کی آواز بلند کی، گیارہ بجے کا 'بلیٹن' تھا، نیوز کاسٹر خالد حمید نے تعارف کروایا اور اعلان کیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی نمازِ جنازہ پڑھا دی گئی ہے اور انہیں سپرد خاک کردیا گیا ہے۔

ہر شئے ساکت۔ کچھ ہی لمحات میں بھیڑ بھاڑ والے پاکستان چوک سے جیسے کسی نے زندگی نچوڑ لی، ایک ایک کر کے پہلے مٹھائی والے کی دکان بند ہوئی، پھر سائیکل والے نے گیراج بند کیا اور پھر توفیق بھائی بھی اپنی دکان کا دروازہ بھیڑ کر نکل پڑے۔

دیہاتی جو مٹکوں میں مکھن اور مقامی سبزی 'بہہ' بیچتے تھے ان پر بھی سکتہ طاری ہوگیا، کچھ لمحات کیلئے بھٹو کے آبائی قصبے لاڑکانہ پر قبرستان کی سی خاموشی چھا گئی، پھر فوج کی دو گاڑیاں اسی علاقے سے گزریں، مجھے یہ تو نہیں یاد کہ کس نے پہل کی مگر بازار کچھ ہی دیر میں "بھٹو، جئے بھٹو" کے نعروں سے گونجنے لگا۔

میرے اسکول کے ساتھیوں اور میں نے سائیکل پر گڑھی خدا بخش قبرستان جانے کا فیصلہ کیا، بکتر بند گاڑیوں اور فوجیوں نے راستے بند کیے ہوئے تھے، لوگ ٹولیوں کی صورت میں وہاں جمع ہونا شروع ہوگئے، فوجیوں نے لوگوں کو آگے بڑھنے سے روکا تو مجمے نے ہزیانی کیفیت میں "قاتل قاتل ضیاء قاتل" کے نعرے لگانا شروع کردیئے۔ 

بعد میں ہمیں پتہ چلا کہ لاڑکانہ اور گِرد و نواح سے سینکڑوں لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا اور دو روز بعد سوئم کے موقع پر کچھ سینئر رہنماؤں کے خلاف 'غدار غدار' کے نعرے بھی بلند ہورہے تھے۔ 

میرا بچن ذوالفقار علی بھٹو کی کرشماتی شخصیت کی یادداشتوں سے بھرا پڑا ہے۔

موہنجو داڑو ایئر پورٹ پر شہنشاہِ ایران اور ملکہ فرح دیبا کو گلدستہ پیش کرنے کیلئے میرا چنا جانا، ریڈ کارپٹ پر غلط جانب کھڑے ہونا اور بھٹو صاحب کا مجھے وہاں سے اٹھا کر صحیح جگہ پر کھڑا کرنا۔

پھر ستتر کے انتخابات،  بھٹو صاحب کا اپنی قریبی ساتھی اور میری والدہ کی بہترین دوست ڈاکٹر اشرف عباسی کے ہمراہ میری آبائی حویلی نما گھر "لکھپت بھون" کا دورہ کرنا،  پھر بھٹو صاحب کا میرے گال تھپتھپاتے ہوئے مجھ سے اپنے لئے ووٹ مانگنا اور میرے جواب "انقلاب کیلئے کام کرنا سب سے بہتر ہے" پر قہقہے لگا کر ہنسنا۔

میں نے تو رٹے ہوئے طوطے کی طرح کہہ دیا جو کامریڈ سوبھو گیانچندانی نے مجھے اور میرے دوستوں کو بتایا تھا، پھر بھٹو صاحب کا میرے ڈرائنگ روم میں بہت سے اخبارات میں سے دائیں بازو کے ایک اخبار کو دیکھ کر بڑے بھائی کو تیکھے انداز میں جملہ مارنا کہ 'اس پراپیگنڈہ مشین کو کیوں پڑھتے ہو'، مجھے یاد ہے۔

اور مجھے یہ بھی یاد ہے کہ میں نے کس طرح بھٹو صاحب کی کھلی کچہری میں اپنے اسکول کے وظیفے کیلئے درخواست تھمائی تو بھٹو صاحب نے پوچھا کہ درخواست (ساتھ ہی بیٹھے) وزیرِ تعلیم کو کیوں نہیں دیتے، تو میں نے برجستہ جواب دیا کہ یہ میرے محلے سے ہیں اور انگریزی لکھ پڑھ نہیں سکتے، بھٹو صاحب خوب مسکرائے۔

بہت عرصے بعد مجھے احساس ہوا کہ یہ ان کی حکمتِ عملی کا حصہ تھا کہ طاقتور زمینداروں کو اپنے ساتھ بھی رکھتے اور جب موقع ملتا تو ہاریوں اور عام لوگوں کے سامنے انہیں شرمندہ کرتے بھی نہیں چوکتے تھے۔

جب نوجوان ہوا تو بذریعہ سڑک دوستوں کے ساتھ پنجاب جانا ہوا، سال 1986، دوستوں نے پیسے اکٹھے کیے، گاڑی کرائے پر لی، اور منزل لاہور کے لیے روانہ۔

میلے کا سا سماں، ضیاء کا دور، بھٹو کی بیٹی بے نظیر کی وطن واپسی، لاکھوں لوگ سڑکوں پر، ان میں وہ لوگ بھی جنہوں نے جیلیں کاٹیں، تشدد برداشت کیا۔

جمہوریت کی بحالی کے لیے قید و بند کاٹنے والے جیالوں کے خاندان، ہاری۔۔۔ اس روز سب ہی خوشی میں محو، رقص میں مصروف، لاکھوں کا مجمع اور ہر کوئی بی بی کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب، جمہوریت کی فضا میں سانس لینے کو بے تاب۔

1988 کے انتخابات میں ایسا ہی ہوا، ہر بڑے زمیندار اور قبیلے کے سردار کو پاکستان پیپلز پارٹی کے نومولود اور سیاسی طور غیر معروف امیدواروں سے شکست اٹھانا پڑی۔

میری بے نظیر بھٹو کے ساتھ بہت ملاقاتیں ہوئیں اور درجنوں مرتبہ غیر ملکی خبر رساں ادارے ' اے ایف پی' کیلئے ان کا انٹرویو لینے کا موقع ملا، بی بی کو انتخابات سے قبل جارحانہ انداز میں دیکھا، لاٹھی چارج، آنسو گیس، رکاوٹوں سے نمٹتے دیکھا اور پھر فاروق لغاری کی اپنی ہی حکومت کے خلاف سازش کے بعد بی بی کے لہجے میں تلخی بھی دیکھی۔ 

'میں نے اِسے بھائی سمجھا، اس نے میری کمر میں چھرا گھونپا، اس نے مرتضیٰ کے چہلم کا بھی انتظار نہ کیا'، بی بی کو یقین تھا کہ مرتضیٰ کا قتل بھٹو خاندان کے خلاف سازش ہے۔

مرتضیٰ بھٹو اپنی بہن کے دورِ حکومت میں جِلا وطنی ختم کر کے واپس آئے، بہن کی پالیسیوں کے سخت مخالف تھے، ایک سیاسی، رومانوی شخصیت جو ملک کے اقتدار کے ڈھانچے میں بنیادی تبدیلی چاہتے تھے، ہم نے کئی ملاقاتوں میں گھنٹوں گھنٹوں مرتضیٰ بھٹو کے شام اور افغانستان میں کاٹی جلا وطنی کے ایام کی یادوں کا ذکر کیا۔

ان کی عالمی رہنماؤں یاسر عرفات، نجیب، اسد اور کرنل قذافی سے ملاقتوں کا تفصیلی ذکر میری اور میرے مشہور لکھاری دوست حسن مجتبیٰ مرتضی بھٹو کے ساتھ طویل ملاقاتوں میں رہا۔

میں نے ان سے کہا پاکستانی سیاست کے لئے حقیقت پسند سے زیادہ تصوراتی تبدیلیوں پر یقین رکھتے ہیں، "بغیر تصورات کے سیاست سمجھوتوں اور سودے بازی کے علاوہ کچھ نہیں"۔

میری مرتضیٰ بھٹو کے ساتھ آخری ملاقات 70 کلفٹن کی رہائش گاہ پر ہوئی، پریس کانفرنس کے بعد مظہر عباس، جاوید سومرو اور مجھے عوامی جلسے میں شرکت کی دعوت دی، ہم نے معذرت کی۔

کچھ ہی گھنٹوں بعد میرے پیجر پر اطلاع آئی 70 کلفٹن کے قریب فائرنگ، سڑکیں بند اور اندھیرا ۔ میں سیدھا میڈ ایسٹ اسپتال کی طرف بھاگا، نیچے زخمیوں کو اسپتال لایا جارہا تھا، اندر اسپتال میں ناصر حسین دیوار پر سر مار رہے تھے۔

مرتضیٰ بھٹو ہمیشہ کے لئے رخصت ہوچکے تھے، رات گئے میں نے بے نظیر بھٹو کو اسپتال میں ننگے پیر سینہ کوبی کرتے ،"میرا بھائی میرا بھائی" چلاتے دیکھا اور غم میں ڈوبی ہوئی غنویٰ بھٹو کا بیٹی فاطمہ کا ہاتھ تھامے بینظیر کی موجودگی کو نظر انداز کرتے دیکھا۔

ایک دفعہ پھر گڑھی خدا بخش کا قبرستان جذباتی غم میں ڈوبے ہوئے بھٹو کے چاہنے والوں کے ساتھ بھرا ہوا تھا۔

لاڑکانہ میں اس شب المرتضیٰ ہاوس میں جو تصویر میرے ذہن میں نقش ہوئی وہ تھی غم میں ڈوبی ہوئی نصرت بھٹو کا چہرہ، جس نے سب کچھ کھو دیا پہلے شوہر، چھوٹا بیٹا شاہ نواز اور اب مرتضیٰ بھٹو جس بیٹے کا خاندانی سیاسی تنازع میں ساتھ دیا تھا۔

میں وہیں فاطمہ بھٹو سے ملا بہت متاثر ہوا، نو عمر لیکن انہوں نے مجھے انٹرویو میں پختگی سے اپنے والد مرتضیٰ کی نا قابل فراموش یاداشتوں کا ذکر کیا۔

اس وقت مجھے ایسا لگا کہ وہ مستقبل میں بھٹو خاندان کی سیاسی باگ ڈور سنبھال سکتی ہے، لیکن وہ عالمی شہرت یافتہ مصنفہ بن گئیں، اور اب وہ میری اور میری بیوی کی بہت اچھی دوست ہیں۔

2007 جنرل مشرف کی ٹی وی چینلز پر پابندی، ایمرجنسی کا نفاذ، صحافیوں کی مزاحمت اور ان پر تشدد، کچھ سینئر صحافیوں کے ساتھ میں نے بھی احتجاجاً گرفتاری دے دی۔

بینظیر کا مجھے جیل میں خیر سگالی کا فون موصول ہوا، پھر انہوں نے بند چینلز کے دورے بھی کیے، میری تفصیلی گفتگو ہوئی، کچھ ہی دن قبل بی بی کارساز کے حملے میں بال بال بچیں تھیں، میں نے بی بی کو کہا "آپ کی جان کو بہت زیادہ خطرہ ہے" ۔

"درست لیکن میں گاڑی کے اندر کیسے چھپ کر بیٹھ سکتی ہوں جب لوگوں کا سمندر سڑکوں پر امنڈ آیا ہو ان لوگوں کو امید ہے میں ان کی زندگیوں میں تبدیلی لا سکتی ہوں"۔

کچھ ہفتوں میں انہیں شہید کردیا گیا اور میں پھر گڑھی خدا بخش کے قبرستان میں۔

آگ لگی ہوئی تھی احتجاج، غم و غصہ، جذباتی نعرے قبرستان کا ایسا ماحول پہلے نہیں دیکھا، اس ماحول میں، میں نے بلاول بھٹو اور اس کی بہنوں کو فاتحہ پڑھتے اور پھولوں کی چادر چڑھاتے دیکھا۔

میں اس امید کے ساتھ رخصت ہوا کہ مجھے اس قبرستان میں جنازوں کے لیے کبھی بھی لوٹنا نہ پڑے، اس پارٹی کے ساتھ میری بہت ساری یاداشتیں جڑی ہوئی ہیں، اچھی بری ہولناک یادیں۔

میری عمر اب 50 برس سے زیادہ اور پارٹی کی عمر بھی، دو سال قبل میں نے کینسر کے خلاف لڑائی لڑی، شکست دی اور زندہ رہا، پارٹی کو بھی اپنے اندر موجود کینسر کے خلاف لڑائی کرنا ہے۔ 

میں نے جو بیماری کے بارے میں جانا کہ بیماری بیرونی عوامل کی وجہ سے پیدا نہیں ہوتی یہ بیماری جسم کہ اندرونی خلیات کی ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے، پیپلز پارٹی کو اپنے کینسر کے خلاف لڑائی اپنی بقاء کے لئے لڑنا ہوگی اور آدھی جنگ اپنے مضبوط ادرادوں سے جیتی جا سکتی ہے۔

نوٹ: اویس توحید معروف صحافی ہیں، یہ یادداشتیں ان کی شائع کردہ انگریزی تحریر کا ترجمہ ہے۔ 

قارئین لکھاری سے یہاں رابطہ کرسکتے ہیں: Twitter @OwaisTohid

Email:[email protected] 


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔