10 اگست ، 2019
کہانی شروع ہوتی ہے پیپلز پارٹی کے دور سے۔ جب امریکہ میں صدر اوباما اور پاکستان میں آصف زرداری حکمران تھے۔ امریکہ اور ہندوستان میں اسٹرٹیجک پارٹنرشپ کے آغاز، ایبٹ آباد آپریشن اور سلالہ کے واقعات کے نتیجے میں پاکستانی قیادت اس نتیجے تک پہنچی کہ اب امریکہ کے بجائے چین اور روس کی طرف جانا ہوگا اور مغرب پر اپنا انحصار کم کرکے علاقائی قوتوں سے ہاتھ ملانا ہوگا۔
یہ لائحہ عمل آصف علی زرداری اور جنرل کیانی نے مل کر بنایا۔ تبھی تو زرداری صاحب چین کے پے درپے دورے کرنے لگے۔ جب وہ پہلی مرتبہ روس جا رہے تھے تو امریکی سیکرٹری خارجہ ہیلری کلنٹن نے فون کرکے انہیں دھمکی تک دی اور روس جانے سے منع کیا لیکن وہ امریکہ کو ناراض کرکے روس چلے گئے۔
امریکہ سے بغاوت کی اس روش کے تسلسل کے طور پر زرداری صاحب نے گوادر کی بندرگاہ سنگاپور کی کمپنی سے واپس لے کر چین کے حوالے کر دی۔ سنگاپور کی کمپنی کو تاوان دینے کے لئے انہوں نے ملک ریاض جیسے ذاتی دوستوں کو بھی استعمال کیا جنہوں نے اپنی جیب سے ادائیگی کی۔
اسی طرح انہوں نے امریکی مرضی کے خلاف ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کے منصوبے کو آگے بڑھایا۔ بلاشبہ پیپلز پارٹی کا جو حشر ہوا اس میں کرپشن اور خراب حکمرانی کا بنیادی کردار تھا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت مغرب کی نظروں میں بھی ناپسندیدہ بن گئی تھی۔ میاں نواز شریف اقتدار میں آئے تو انہوں نے چین اور روس کے ساتھ قربت کے سلسلے کو مزید تیز کر دیا بلکہ وہ تو ایک اور انتہا پر گئے اور سارے انڈے چین کے باسکٹ میں ڈال دیئے۔ وہ چین کی محبت میں ایسے گرفتار ہوئے کہ حکومتوں کے تعلق کو خاندانی تعلق میں بدلنے کی کوشش کی اور سی پیک کے حوالے سے چین کے ساتھ مناسب بارگیننگ بھی نہیں کی۔
تبھی تو یہ اعتراض ہوتا رہا کہ جو کچھ ہو رہا ہے اس میں پاکستان کے مفادات سے زیادہ چین کے مفادات کا خیال رکھا جا رہا ہے تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ چین نے اسٹرٹیجک اور معاشی ہر حوالے سے پاکستان کو عملاً اپنا اسرائیل سمجھنا شروع کیا اور سفارتی یا معاشی سطح پر جہاں بھی ضرورت پڑی، اس نے پاکستان کو مدد فراہم کی۔ اسی طرح روس بھی دھیرے دھیرے پاکستان کے قریب آنے لگا۔ افغانستان کے معاملے پر اگر پاکستان امریکہ کو اپنے بیانیے کی طرف لے آیا ہے تو اس میں دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ چین اور روس کا بھی کردار رہا۔ نواز شریف کے اپنے جرائم بھی کم نہیں لیکن شاید ان کے ساتھ جو ہوا اس میں ان کے امریکہ سے متعلق اس باغیانہ اور چین سے متعلق اس تابعدارانہ رویے کا بھی کردار تھا۔
گزشتہ کچھ عرصہ میں امریکہ کے اندر دو طرح کی تبدیلیاں آئیں۔ ایک تو ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بن جانے کی تبدیلی ہے جو ہر معاملے کو صرف اور صرف معاشی اور تجارتی زاویے سے دیکھتے ہیں جبکہ دوسری تبدیلی یہ آئی ہےکہ امریکہ کے لئے اب القاعدہ اور طالبان نہیں بلکہ چین پہلی ترجیح بن گیا ہے۔
چین کے مقابلے کے لئے جہاں وہ دیگر اقدامات کر رہا ہے وہاں اس کی ضرورت ہے کہ بھارت کو اس کے مقابلے کے قابل بنانے کے لئے پاکستانی سائیڈ سے مطمئن کردیا جائے اور دوسری طرف پاکستان کو بہلا پھسلا کر چین اور روس کی طرف مزید قریب جانے سے باز رکھا جائے چنانچہ ایک طرف افغانستان میں پاکستان کی ضرورت ہے تو دوسری طرف خطے سے متعلق امریکہ کے ذہن میں یہ نقشہ ہے، اسی لئے وہ وقتی طور پر پاکستان پر مہربان ہوا ہے۔ امریکہ کی طرف سے ایک عرصے سے پاکستان کو یہ پیغام دیا جا رہا تھا کہ وہ کشمیر کے مسئلے میں اپنا کردار ادا کر کے ہندوستان کو مذاکرات کی میز پر لائے گا۔ نہ صرف مودی سے بات ہوئی تھی بلکہ امریکی ڈیپ اسٹیٹ نے کافی ہوم ورک بھی کیا ہوا تھا۔
یہ بات عمران خان صاحب کے علم میں بھی آئی تھی اور اسی تناظر میں انہوں نے یہ بیان جاری کیا تھا کہ مودی کے دوبارہ انتخاب سے مسئلہ کشمیر کے حل کی راہ ہموار ہو گی۔ امریکہ کا منصوبہ یہ نظر آتا ہے کہ مغربی سرحد پر پاکستان کو اور مشرقی سرحد پر ہندوستان کو راضی کیا جائے۔ اسی لئے افغانستان کے حوالے سے کھل کر پاکستان کے رول کو تسلیم کر لیا گیا اور ہندوستان کو اس پورے عمل سے باہر رکھا گیا۔ شاید یہ اسکرپٹ پیش نظر تھا اس لئے ہندوستان نے افغانستان سے باہر ہونے پر وہ ردعمل نہیں دکھایا جس کی توقع تھی۔
اب اگر ڈونلڈ ٹرمپ اور عمران خان کی ملاقات سے قبل کی گئی پریس کانفرنس کو ذہن میں تازہ کیا جائے تو بات کچھ نہ کچھ سمجھ میں آجاتی ہے۔ پاکستان میں اس پہلو کو مدِنظر نہیں رکھا جا رہا کہ یہ پریس کانفرنس عمران خان اور ڈونلڈ ٹرمپ کی بات چیت کے آغاز میں ہوئی نہ کہ اس کے بعد۔ ابھی عمران خان صاحب نے ان سے گفتگو کی تھی اور نہ پاکستان کو کیس پیش کیا تھا کہ ٹرمپ صاحب نے ان خیالات کا اظہار کیا۔
پریس کانفرنس اگر ملاقات کے بعد ہوتی تو ہم کہہ سکتے تھے کہ خان صاحب نے ان کو کشمیر یاد دلایا ہے یا پھر کسی بات پر قائل کیا ہے لیکن افغانستان کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ نے جو کچھ کہا وہ بھی پہلے سے ان کے ذہن میں تھا اور ہندوستان یا کشمیر پر بھی ان کی سوچ پہلے سے بنی ہوئی تھی۔ میرے نزدیک ڈونلڈ ٹرمپ نے صرف ثالثی کا لفظ غیر ضروری استعمال کیا اور اصل بات وہ یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ ہندوستانی قیادت سے ان کی بات ہو چکی ہے۔
تاہم ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اظہار خیال سے مودی سرکار کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ امریکہ کے ساتھ جو منصوبہ بنا ہے وہ تو آشکار ہو گیا اور ہو سکتا ہے کہ امریکہ اب جلد از جلد خطے میں اپنے منصوبے کے بارے میں عمل درآمد کا مطالبہ کرے اور شاید اسی لئے اس نے اپنی بارگیننگ پوزیشن مضبوط بنانے کے لئے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو تبدیل کرنے کا قدم عجلت میں اٹھایا۔
مودی سرکار سوچتی ہے کہ کل اگر امریکہ کے ایما پر مذاکرات کا آغاز ہو تو وہ اس پوزیشن میں ہو کہ مقبوضہ کشمیر کو ہندوستان کا حصہ سمجھ کر معاملے کو آگے بڑھایا جائے لیکن جس بھونڈے انداز میں اس نے یہ کام کیا، اس کی وجہ سے ہو سکتا ہےکہ امریکہ کا یہ پورا خواب چکنا چور ہو جائے کیونکہ اب فریقین کے لئے اسکرپٹ کے مطابق آگے بڑھنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوگا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔