کیا میں ہندوستان پر حملہ کر دوں؟

فوٹو فاءل—

دنیا کے کسی بھی آئین میں ترمیم کا ایک طے شدہ طریقِ کار ہے بھارتی آئین میں بھی یہ پروسیجر موجود ہے، جس کی پیروی نہیں ہوئی ہے۔ اسی طرح ہمارے ساتھ طے شدہ معاہدوں کی انہوں نے یکطرفہ جو خلاف ورزی کی اس کے خلاف ہمیں ضرور عالمی عدالتِ انصاف کے علاوہ سلامتی کونسل میں جانا چاہئے لیکن یہ برباد کر کے رکھ دیں گے یا روایتی جنگ سے بھی آگے یعنی ایٹمی جنگ تک چلے جائیں گے، ایسی اشتعال انگیزی سے بہرحال ہمیں اجتناب کرنا چاہئے۔

 بہت سے اہلِ دانش کی نظر میں ان تمام تر خرابیوں یا بربادیوں کی اصل جڑ تقسیم یا تقسیم کی کوتاہیاں اور اس سے جڑی بنیادی خرابیاں تھیں۔ بہت سے لوگ آج بھی دیانتداری سے یہ سمجھتے ہیں کہ پارٹیشن کا اصل نقصان مسلمانانِ جنوبی ایشیاء کو ہوا جن کا اجتماعی وجود کاٹ کر تین ٹکڑوں میں بانٹ دیا گیا۔ یوں ان کی اجتماعی طاقت بکھر کر رہ گئی اور پھر آج 7دہائیاں گزرنے کے بعد ہم سوچیں کہ کسی بھی خطہ ارضی میں 60کروڑ کی توانا آبادی محض اقلیت یا بے وزن بن کر کیسے رہ سکتی ہے۔

اتنی بڑی طاقت کی نمائندگی اگر لوک سبھا میں بیٹھی ہوتی تو ان کے بغیر کوئی حکومت کیسے بن سکتی تھی اور کیسے چل سکتی تھی؟ کشمیر اور بنگلہ دیش سمیت بہت سے مسائل پیدا ہی نہیں ہونا تھے۔

 بہرحال جو ہوا سو ہوا جواب تاریخ کا حصہ ہے۔ آج کی صورتحال یہ ہے کہ ہمیں جیو اور جینے دو کی پالیسی کے ساتھ آگے بڑھنا ہے لیکن جب ہم نے ایک دوسرے کا جینا حرام کیا تو بات آگے سے آگے بڑھتی چلی گئی۔

آج ہندوستان میں کانگرس یا پنڈت نہرو کی نہیں بی جے پی اور نریندرا مودی کی حکومت ہے جو اینٹ کا جواب پتھر سے دیتی ہے۔ اس لئے اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ردِ عمل میں جہادی لشکر ہندوستانیوں کا جینا حرام کر دیں گے تو یہ بھی ہماری افسوسناک بھول ہو گی۔ ہم تو پہلے ہی پرانے گناہوں یا کرموں کو بھگت رہے ہیں اور اِسی وجہ سے ہم اپنے دیرنیہ کشمیر ایشو پر عالمی برادری کی پہلی سی محبت و حمایت سے بھی محروم ہو چکے ہیں۔

 یہاں افغانستان میں امن کے لئے تعاون پر بھی سوال اٹھایا گیا ہے۔ ہمیں کشمیر کی صورتحال کو افغانستان کی بدامنی کے ساتھ جوڑنے کا تخیل ذہن سے نکال دینا چاہئے۔ افغانستان میں ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی رول نہیں ہے کہ ہم طالبانوں کو کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر لاتے ہوئے کوئی باوقار معاہدہ کروانے میں معاونت کریں اور تمام شدت پسند جہادیوں پر یہ واضح کریں کہ قیامِ امن کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے۔

مودی سرکار کے اس غلط اقدام میں ہی کئی ایسی چیزیں ہیں جو خود ان کے اپنے لئے سخت نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں۔ سب سے پہلے خود اُن کی اپنی قوم میں اس ایشو پر افتراق پیدا ہو گیا ہے، ان کی اپوزیشن ان کی مخالفت میں ہماری اپوزیشن سے کہیں زیادہ چیخ رہی ہے۔

ریاست کشمیر کے اندر پچھلی سات دہائیوں سے اُن کی حمایت میں رطب اللسان کشمیری لیڈر آج حریت والوں سے بھی بڑھ کر بھارت سرکار کی مخالفت میں مرنے مارنے کی باتیں کر رہے ہیں۔جسے شک ہے وہ فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی کی تقاریر اور پریس کانفرنسز ملاحظہ کر لے۔ پورے ہندوستان کی 29ریاستوں میں کشمیر واحد مسلم اکثریتی ریاست ہے، 35Aکے ہٹنے سے دیگر ریاستوں کے وہ مسلمان جو مسلم اقلیت میں رہنے کے بجائے اکثریت میں بسنا چاہیں گے وہ بخوشی کشمیر میں آباد ہو سکیں گے۔

ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ ایسا نا عاقبت اندیش فیصلہ کر کے مودی سرکار ازخود پاکستان کے زیر کنٹرول خطے سے دستبردار ہو گئی ہے۔ وہ ہم سے تو اپنے دعویٰ کے برعکس کوئی ایک انچ خطہ لے سکے ہیں نہ آئندہ کے لئے ایسا کوئی دعویٰ کرنے کی پوزیشن میں رہے ہیں اب ہم بھی اپنے زیر کنٹرول کشمیر کے دونوں حصوں کو اپنا ایک کشمیری صوبہ بنا سکتے ہیں۔ 

ہمارے وزیراعظم عمران خان نے بہت پہلے ایک انٹرویو میں مسئلہ کشمیر کا حل کشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کر دینے کی تجویز کے ذریعے پیش کیا تھا۔ جب وہ کشمیر کو اپنی خوشی سے تین حصوں میں تقسیم کرنے پر تیار تھے۔ ہم نے فاٹا کو بھی خیبرپختونخواہ میں ضم کر لیا ہے اور اسی طرح زرداری دور میں گلگت بلتستان کو علیحدہ صوبہ ڈیکلئیر کیا گیا تھا، یہ کام شاید ہنوز وہیں رکا پڑا ہے۔

پریشانی کی آخری حدود تک پہنچنے سے پہلے ہم اس اپروچ پر بھی محض ایک نقطہ نظر کی حد تک غور کر لیں کہ اگر ہمارے 20کروڑ سے زائد بھارتی مسلمان قائد کے الفاظ میں بھارتی لائل سٹیزن کی حیثیت سے ہندو اکثریتی خطوں میں راضی خوشی رہ سکتے ہیں تو ایک کروڑ سے بھی کم کشمیری مسلمان اپنی اکثریتی ریاست میں برابر کے شہری حقوق کے ساتھ کیوں نہیں رہ سکیں گے؟ کیونکہ اصل ایشو ہی مسلم اقلیتی خطوں میں بسنے والے ہمارے مسلمان بھائیوں کا تھا۔

 جو خطے ہم نے حاصل کیے یہاں تو پہلے ہی ہماری اکثریت تھی، مسلم اکثریت کو بھلا یہاں کیا خطرات ہو سکتے تھے بلکہ ایسی صورت میں متحدہ پنجاب اور متحدہ بنگال میں جو مسلمان ریاستی حکومتیں قائم ہوتیں ذرا اُن کی حدود کا تو اندازہ کریں۔

 ایک طرف دہلی تک اور دوسری طرف کلکتہ سے بھی کہیں آگے تک خطے ہمارے زیر کنٹرول ہونا تھے۔ محبوبہ مفتی صاحبہ کو آج دو قومی نظریہ یاد آگیا ہے، ان کے والد محترم مفتی سعید صاحب تبھی مولانا آزاد کو اس مسئلے پر قائل کرنے کی کوشش کر لیتے لہٰذا ہماری سیاسی قیادت اس مسئلے کو خون خرابے یا جنگوں تک لے جانے سے اجتناب فرمائے۔ 

آخر ہم نے ماقبل کتنی جنگیں لڑ کر دیکھ لی ہیں کیا حاصل ہوا اُن سے؟ گزارش ہے کہ اپنے ملک پاکستان کو اقوامِ عالم میں باوقار مقام دلوانے کے لئے اس کی ترقی و سلامتی کا سوچیں، بائیس کروڑ عوام کے دکھوں کا مداوا کریں اور کشمیر بھائیوں کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی مدد میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کریں۔

 اگر کشمیر واقعی ہماری شہ رگ اور ہماری داخلہ و خارجہ پالیسی کا محور ہے اور اس کی بنیاد پر ہم نے اپنے ملک میں آئین جمہوریت اور انسانی حقوق و وسائل کا گلا گھونٹ رکھا ہے تو پھر یہ مت کہیے کہ ”کیا میں ہندوستان پر حملہ کر دوں؟“۔ نتائج کی پرواہ کیے بغیر آخری حدود تک جائیے تاکہ روز روز مرنے کا ٹنٹنا تو ختم ہو۔

یہ خبر روزنامہ جنگ میں 21 اگست کو شائع ہوئی۔

مزید خبریں :