24 اگست ، 2019
اپنا گزشتہ کالم اشاعت کے بعد دیکھا تو موڈ ہی آف ہوگیا۔ ایسی کمپوزنگ یا پروف ریڈنگ کا تصور ہی ممکن نہیں مثلاً میں نے لکھا تھا ’’خالص ریشم کا کفن بھی مردے کو زندہ نہیں کرسکتا‘‘۔شائع ہوا’’خالص ریشم کا کفن بھی مردے کو زندہ کر سکتاہے‘‘۔لکھا تھا"BE PAKISTANI, BUY PAKISTANI" والی بات تو بہت اچھی ہے لیکن کیا کریں ’’ایف 16‘‘ سیالکوٹ، گجرانوالہ، گجرات، لالہ موسیٰ میں نہیں بنتے۔BUYکو BAY کر دیا گیا جس پر میں معذرت خواہ ہوں۔
لائل پور سے ’’لائل پور گزٹ‘‘ شائع ہوتا ہے۔ وہی لائل پور جسے فیصل آباد بنا دیا گیا۔ اس لائل پور گزٹ کے چیف ایڈیٹر ہیں کامران افضل اور ایڈیٹر ہیں پروفیسر وقاص احمد ورک جبکہ مجلس مشاورت میں بشیر اعجاز، اشرف شعری، پروفیسر وقار پیروز، سید عبداللہ حسینی اور غلام فرید چشتی شامل ہیں جن میں سوائے ’’تصویری مورخ‘‘ بشیر اعجاز کے میں ذاتی طور پر کسی کو نہیں جانتا لیکن ان کا شکریہ کہ انہوں نے میرے اندر کا لائل پور ہی نہیں جگایا بلکہ پنجابی زبان کے ساتھ میری نیم خوابیدہ کمٹمنٹ کو بھی بیدار کردیا ہے۔
لائل پور کے بارے میں حبیب جالب نے لکھا تھا ’’لائل پور ایک شہر ہے جس میں دل ہے مرا آباد‘‘ادھر اپنا یہ حال کہ میں جہا ں بھی رہوں، میری روح لائل پور کے گھنٹہ گھر کے گرد محو طواف رہتی ہے کہ اس شہر میں میرا بچپن اور لڑکپن گزرا۔ اتنی خوبصورت یادیں وابستہ ہیں کہ بیان نہیں کر سکتا۔ اسکول سے لے کر کالج تک طلسم ہوشربا ہے۔
ہمارا ایک گھر پیپلز کالونی دوسرا سرکلر روڈ پر تھا سو بظاہر زرعی یونیورسٹی لائل پور کے ساتھ کوئی تعلق نہیں لیکن یار غار حفیظ خان کے مرحوم والد ڈاکٹر عبدالحمید خان وہاں بوٹنی شعبہ کے سربراہ تھے اور دنیا انہیں ’’بابائے بوٹنی‘‘ کے نام سے یاد کرتی ہے۔
یاد رہے یہ وہی حفیظ خان ہے جو جہانگیر بدر مرحوم کو شکست دے کر پنجاب یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کا صدر منتخب ہوا اور جاوید ہاشمی المعروف ’’باغی‘‘ سیکرٹری۔ زرعی یونیورسٹی کا سوئمنگ پول بہت شاندار تھا اور ہمیں حفیظ خان کے والد ڈاکٹر صاحب کی وجہ سے اس تک رسائی تھی، اس لئے اکثر سوئمنگ کے لئے چلے جاتے۔ اسی لئے اس یونیورسٹی کے ساتھ بھی ایک خاص طرح کی وابستگی ہے۔ سچ پوچھیں تو یونیورسٹی کیا جنت کا ٹکڑا تھا۔ کسی گھنے ترین جنگل سے بھی زیادہ ہریالی کہ ظاہر ہے زرعی یونیورسٹی کا تو مطلب ہی ہریالی اور ہریالی کی تعلیم و تربیت ہے۔
مجھے آج بھی ایگری کلچر یونیورسٹی کے عالیشان، بلند و بالا درخت یاد ہیں جن کے درمیان گھومتے ہوئے شدید گرمی میں بھی خنکی سی محسوس ہوتی تھی۔’’لائل پور گزٹ‘‘ میں انہی درختوں کے قتل عام کا نوحہ شائع ہوا ہے ۔مقام حیرت کہ ادھر حکومت شجرکاری عام کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے تو دوسری طرف زرعی یونیورسٹی درختوں کے قتل عام پر تلی ہے۔
’’لائل پور گزٹ‘‘ والوں نے درختوں کی اندھا دھند کٹائی پر اک نظم کی شکل میں احتجاج کیا ہے۔ یہ نظم امرتا پریتم کی لازوال نظم ’’اج آکھاں وارث شاہ نوں‘‘ کی تضمین پر لکھی گئی اور اس کا عنوان ہے ’’اج آکھاں حسن نثار نوں‘‘ چند شعر چکھیئے:
اج آکھاں حسن نثار نوں کتوں خبروں وچوں بولتے لیل پور دے عشق دا کوئی اگلا ورقہ پھولاک روئی سی PTI وی توں لکھ لکھ مارے ویناج اکھاں پیاں روندیاں تے حسن نثار نوں کہنوے درد منداں دیا دردِ یا اٹھ تک جامعہ زراعتاج رُکھاں لاشاں وچھیاں میں جدھر ماراں جھاں کسے نے ایدے رکھاں وچ دتی آری چلاتے ایہناں آریاں رُکھاں نوں دتا وڈ وڈاجامعہ زرعی دی بھوئیں تے وڈ وڈ سٹے رُکھمیتوں کھو لیاں ہرلیاں میں کویں سناواں دکھوا وگی فیر پیسے دی، گن گن گن دا جارُکھاں تھانویں سریا پا کے اٹاں چن دا جاپہلا ڈنگ روپے دا جنہیں اکھاں کیتیاں بنددوجا ڈنگ اے سوچ دا جہنے فکراں کیتیاں تنگانھی طاقت، انھا پیسہ، بس فیر ڈنگ ای ڈنگہری کچور جامعہ دے فیر پھکے پے گئے رنگمڈھوں اکھڑے رُکھ تے بن گئی کند تے کندچھانویں بیٹھیاں سہیلیاںتے لے گئے کھیڑے سنگسنے یاداں پرانیاں اج اتھرو دتے روڑھایویں پیا میں روواں ساڈے اُتے بیٹھے کوڑھجتھے بہندے سی پنچھی پیار دے، اوٹہنی گئی گواچرُکھاں دے سب پنچھی بھل گئے بھین دی جاچہن نیزے سورج چمک دا تے چھاواں پیاں رونیاداں دیا چھتاں وچوں ہانواں پیاں چونجد سبھے آرے چل گئے تے رُکھ پیئے وچ گوراج کتھوں لیایئے لبھ کے ایچ کوربن اک ہورنوٹ۔
H H CORBINزرعی یونیورسٹی (تب کالج) کے پہلے پرنسپل (1906ء تا 1909ء) تھے جن کے دور میں یہ زرعی کالج بنا اور سینکڑوں درخت لگائے گئے جنہیں قتل کر دیا گیا لیکن ہم تو وہ ہیں جنہوں نے جنگل بیچ کھائے اور کسی کی آنکھ میں آنسو نہ آئے۔