بلاگ
Time 24 اگست ، 2019

ترکی کے خوبصورت شہر بُرسا کی سیر

استنبول سے 250 کلومیٹر دور پہاڑی علاقہ بُرسا ہے جہاں سے ترکی کی 70 فیصد آبادی کو پانی فراہم ہوتا ہے—

اس سال گرمیوں کی چھٹی میں دوبارہ ترکی کے شہر استنبول جانے کا موقع ملا، ہمارے دوست استنبول سے 250 کلومیٹر دور ایک پہاڑی علاقے بُرسا (Bursa) میں رہتے ہیں۔ انہوں نے وہاں آنے کی دعوت دی اور بتایا اس علاقے میں آبشار کثرت سے پائی جاتی ہیں۔ یوں سمجھیں 70فیصد ترکی کی آبادی کو یہاں سے پانی فراہم کیا جاتا ہے۔

 دیگر قدرتی مناظر اور پہاڑ ی سلسلے بھی بکثرت ہیں، گرم اور ٹھنڈے پانی کے چشمے بھی ہیں، الغرض بڑی جگہیں گنوائیں اور خود میزبانی کی خواہش ظاہر کی تو ہم استنبول سے بُرسا روانہ ہوگئے۔

 بُرسا جانے کے لئے ایک سمندری راستہ ہے جس سے صرف ڈیڑھ گھنٹے میں استنبول سے بُرسا پہنچ سکتے ہیں یا پھر بسوں اور گاڑیوں کے ذریعے 3گھنٹے میں جایا جا سکتا ہے تو ہم نے پلان یہ بنایا کہ بڑے جہاز سے بذریعہ سمندر جایا جائے، واپسی پر کار سے استنبول آیا جائے۔ چنانچہ CRUSEسے 11بجے روانہ ہوئے، تمام دن یہ کروز ہر دو تین گھنٹے کے بعد آتے جاتے ہیں، بہت صاف ستھرے کروز تھے، سفر آسانی سے کٹ گیا۔ 

بُرسا پہنچے تو کنارے پر ہمارے میزبان نے ہمیں ریسیو کیا۔ آدھ گھنٹے کی دوری پر اس کی رہائش ایک پہاڑی عثمان غازی پہ تھی، دوپہر کا کھانا کھا کر آرام کیا اور شام کو وہاں سے ایک دوسری پہاڑی جو پون گھنٹے کی مسافت پر تھی، چلے گئے۔ یہ ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ اس کی وجہ شہرت ایک بہت بڑا درخت ہے جس کی عمر 600سال بتائی جاتی ہے۔ بہت ہی گھنا اور تناور درخت تھا جس کے سائے میں ایک پورا ریسٹورنٹ اور بیٹھنے کے لئے بنچز لگے ہوئے تھے۔ 

یہ پوری طرح لوگوں سے بھرا ہوا تھا، چوٹی سے نیچے بُرسا شہر کا خوبصورت نظارہ تھا۔ گرم گرم پراٹھے جو آلو اور پنیر کے الگ الگ بنے تھے، ترکش کافی کے ساتھ بہت مزے دار تھے۔ جب بھی آپ ترکی جائیں گرم گرم آلو اور پنیر کے پراٹھے جو ترکوں کے مرغوب اسنیکس ہیں، ضرور کھائیں۔

اگر آپ کڑوی کافی کے شوقین ہیں تو یہ ترکش کافی کا پہلا گھونٹ آپ کو ہلا دے گا، عام کافی سے 5گنا زیادہ کڑوا، یہ ٹیسٹ ہر کسی کے بس کا نہیں، یہ بغیر چینی کے پی جاتی ہے۔ چھوٹا سا قہوے کا پیالہ، ہم نے تو ہمت نہیں کی اور عام کافی پر اکتفا کیا، البتہ گرما گرم تازے پراٹھوں سے خوب انجوائے کیا اور اسی سے پیٹ بھر گیا۔ رات کے کھانے کی نوبت ہی نہیں آئی۔ رات گئے تک پہاڑی پر گھومتے رہے اور پھر واپس بُرسا آگئے۔

دوسرے دن ایک پہاڑی شہر اولاٹ (Oylayt) بذریعہ کار روانہ ہوئے۔ بُرسا سے ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت طے کرکے نیچے پہنچے جہاں گرم اور ٹھنڈے پانیوں کے چشمے ہیں۔ یہاں بہت سارے SPA اور ہوٹل میں نلوں کے ذریعے گرم پانی کے حمام بنائے گئے ہیں۔ الگ الگ چھوٹے کمروں میں نہانے کا بندوبست ہے۔

 آپ چاہیں تو سارے دن کے لئے کمرہ کرائے پر لے لیں یا پھر گھنٹے بھر کے لئے بک کرا سکتے ہیں۔ یعنی جتنے گھنٹے آپ حمام استعمال کریں گے، اسی حساب سے کرایہ ادا کریں گے۔ تقریباً 10سے 15ڈالر فی گھنٹہ اچھے اور صاف ستھرے حمام کا کرایہ ہوتا ہے۔ چپل، صابن، شیمپو، ٹوتھ پیسٹ اور تولیہ بھی ملے گا، کافی دلچسپ ہے خصوصاً گرم پانی سے نہانے سے تازگی کا احساس ہوتا ہے۔

ایک اور پہاڑی پر گئے وہ بالکل سفید پہاڑی تھی، اس کا نام Pamukkale تھا جو Denizle کے علاقے میں واقع تھی۔ ایک پہاڑی سے دوسری پہاڑی تک جانے کے لئے کئی چیئر لفٹس لگی تھیں۔ گو کہ پہاڑی سلسلے تھے مگر یہ خشک اور سفید علاقہ تھا۔ یہاں بہت عمدہ ہوٹل بنے ہوئے تھے، ہر پہاڑی پر آنے جانے کا کرایہ 10ڈالر تھا۔ 

نیچے ایک بہت بڑا ریسٹورنٹ تھا جس میں آپ کو کوئلے سلگا کر انگیٹھی دی جاتی ہے۔ آپ اپنے مطلب کا صاف کیا ہوا بھیڑ، گائے اور مرغی کا گوشت خریدیں، خود آگ پر بھونیں اور گرما گرم گوشت کا لطف اٹھائیں۔ اتنا تازہ باربی کیو کیا ہوا گوشت وہ بھی صرف معمولی نمک اور زیرہ لگا ہوا، شاید ہی آپ نے کھایا ہو۔ یہ مقام بھی بُرسا سے 2گھنٹوں کی مسافت پر واقع ہے، بہت یادگار جگہ ہے۔

 ایک ہفتہ ہم بُرسا اور اس کے نواحی علاقوں اور پہاڑی پر گزار کر بذریعہ کار واپس استنبول ایئر پورٹ پہنچے جس کی مسافت ڈھائی گھنٹوں میں براستہ ہائی وے طے کی، تمام راستے ہر طرف ہریالی ہی ہریالی تھی، درمیان میں گھوڑوں کے اصطبل، فارمز بھی تھے جہاں گھوڑوں کی افزائش ہوتی تھی۔

 یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ جس طرح عربوں کو اونٹ کا گوشت اور اوٹنی کا دودھ پسند ہے، ترکوں کو گھوڑے کا گوشت بہت مرغوب ہے اسی وجہ سے ترک قوم بہت بہادروں اور دوستوں کی قدر کرتی ہے اور دوستی نبھانے میں اپنا اعلیٰ مقام رکھتی ہے۔ خصوصاً ہر ترک پاکستان اور پاکستانی قوم کا بہت احترام کرتا ہے۔

 ہم جس جس اجنبی ترک سے ملے اور بتایا کہ ہم پاکستان سے آئے ہیں تو اس نے گرم جوشی سے ہاتھ ملایا۔ ریسٹورنٹس میں چند اضافی آئٹم مفت پیش کئے۔ ویسے تو ترک قوم کا کھانا بار بی کیو کے ساتھ سبزیاں، سلاد، پراٹھا اور پنیر ہوتا ہے مگر استنبول میں ایک عربی ترکی مکس ریسٹورنٹ بہت مشہور ہے اس کا نام مدینہ ریسٹورنٹ ہے۔

 بے حد لذیذ اور تازہ آگ یا انگیٹھی پر پکے ہوئے کھانے نایاب انداز میں پیش کرتے ہیں اور ٹیبل پر لاکر مٹی کی ہانڈیوں میں سرَو کرتے ہیں۔ کھانے کے اوقات میں تو کئی کئی گھنٹوں کی انتظار ہوتا ہے، بہتر ہے بکنگ کرا کے جائیں ورنہ انتظار گاہ میں بیٹھنا پڑے گا۔

چلتے چلتے بتاتا چلوں کہ 70کی دہائی میں ہماری قومی ایئر لائن پی آئی اے نے ترکش ائر لائن بناکر دی تھی۔ 73ء میں ہمارے پاس تجربے کے علاوہ ترکش ایئر لائن سے دو گنا جہاز تھے اور ہمارا ایئر پورٹ بہت کشادہ تھا اور ہم پی آئی اے سے امریکہ، کینیڈا اور تمام بڑے یورپین ممالک، خلیجی اور ایشیائی ممالک جاتے تھے اور 10بڑی ایئر لائنوں میں شمار ہوتے تھے اور 10بڑی ایئر لائنز بنائی بھی تھیں۔

 ان میں سنگاپور، ترکش، بلجیم اور آخر میں امارات شامل تھیں۔ راقم پہلی مرتبہ ترکی 1973میں بزنس کے سلسلے میں گیا تھا، اس وقت بہت چھوٹا ایئر پورٹ ہوتا تھا پھر 45سال کے دوران آنا جانا رہا۔ اس کے ایئر پورٹ کشادہ اور جہازوں کی تعداد بڑھتی گئی۔

اس مرتبہ ایک نئے ایئر پورٹ کا افتتاح ہوا تھا، جس میں تقریباً 2کلومیٹر اندر چلنا پڑا۔ بہت کشادہ خوبصورت اور ڈیوٹی فری کی سینکڑوں دکانوں سے آراستہ دبئی انٹر نیشنل ایئر پورٹ سے تقریباً 2گنا بڑا۔ اب اس کے جہازوں کی تعداد 328ہو چکی ہے۔ تقریباً 1،1گھنٹہ جہازوں کے ٹیک آف میں لگتا ہے جبکہ 4رن وے استعمال ہو رہے ہیں۔ اس وقت 300سے زیادہ شہروں میں آ جا رہے ہیں جن میں 253بین الاقوامی اور 50مقامی ترکی کے شہر شامل ہیں۔

 ہماری پی آئی اے 55جہازوں سے 30تک آ چکی ہے اور پوری دنیا سے گھٹ کر اب چند ممالک تک محدود ہو چکی ہے، ایئر لائن کو فروخت کرنے کی بھی دو تین بار کوششیں کر چکے ہیں مگر 1درجن پی آئی اے یونینز آڑے آ جاتی ہیں اور خسارہ بڑھتے بڑھتے اربوں روپے تک پہنچ چکا ہے۔ شاید نئی حکومت کوئی تبدیلی لا سکے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔