پاکستان

اُمت مسلمہ تفریق کا شکار

فوٹو: فائل

مسلمانوں کا قبلہ اول مسجد اقصیٰ، خانہ کعبہ اور مسجد نبویؐ کے بعد تیسرا بڑا مقدس مقام ہے۔ نبی کریمﷺ معراج کے سفر کے دوران مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ پہنچے اور یہاں تمام انبیاء کرام کی نماز کی امامت کرنے کے بعد اپنے خالقِ حقیقی سے ملاقات کیلئے براق پر ساتویں آسمان کے سفر پر روانہ ہوئے۔ آج مسلمانوں کے اِس مقدس مقام پر اسرائیل کا قبضہ ہے۔

21 اگست 1969کو ایک آسٹریلوی یہودی نے مسلمانوں کے قبلہ اول کو آگ لگا دی جس سے مسجد اقصیٰ کئی گھنٹوں تک آگ کی لپیٹ میں رہی اور جنوب مشرقی جانب عین قبلہ کی طرف کا بڑا حصہ گر پڑا جبکہ محراب میں موجود منبر بھی نذر آتش ہو گیا جسے صلاح الدین ایوبی نے فتح بیت المقدس کے بعد نصب کیا تھا۔

مسجد اقصیٰ کی شہادت کے وقت گولڈہ مائر اسرائیل کی وزیراعظم تھیں۔ وہ اپنی کتاب میں تحریر کرتی ہیں کہ ’’مسلمانوں کے مقدس مقام مسجد اقصیٰ کو نذر آتش کئے جانے جیسے بڑے سانحے کے بعد وہ اس خوف کے باعث رات بھر سو نہ سکیں کہ کہیں پڑوسی عرب ممالک اسرائیل پر حملہ نہ کر دیں مگر اگلی صبح اُنہیں اس بات پر حیرانی ہوئی کہ اتنے ہولناک واقعہ کے بعد بھی امت مسلمہ خواب غفلت سے بیدار نہ ہوئی اور عرب ممالک نے اسرائیل پر حملہ کرنے کی جرات نہیں کی‘‘۔

مسلمانوں کی اس بے حسی کو دیکھتے ہوئے گزشتہ سال امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس متنازع مقام کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا اور امریکی سفارتخانہ بیت المقدس منتقل کرنے کا اعلان کیا۔ اس امریکی اقدام پر اسلامی ممالک کی جانب سے سخت ردعمل کے بجائے اسلامی ممالک کی جانب سے بات مذمتی قرارداد سے آگے نہ بڑھ سکی۔

مسلمانوں کی اِسی بے حسی کو مدنظر رکھتے ہوئے جب نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے وادی کو بھارت کا حصہ قرار دیا اور کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا اعلان کیا تو اُسے یہ بخوبی اندازہ تھا کہ دنیا بھر کے مسلمان اس سنگین بھارتی اقدام پر خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہیں گے اور ہوا بھی کچھ اسی طرح کہ مودی کے اس اقدام اور کشمیریوں پر بھارتی فوج کے مظالم پر کسی اسلامی ملک نے آواز بلند نہ کی۔

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ کشمیر کی سنگین صورتحال پر او آئی سی کا ہنگامی اجلاس طلب کیا جاتا تاکہ مودی کو مسلمانوں کی جانب سے ایک سخت پیغام ملتا مگر او آئی سی نے محض دکھاوے کیلئے رابطہ کمیٹی برائے کشمیر کا اجلاس طلب کرنے پر ہی اکتفا کیا جس میں پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے شرکت کی لیکن افسوس کہ کئی ہفتے گزرنے کے باوجود بھی اجلاس کا کوئی متفقہ اعلامیہ جاری نہ ہو سکا جو مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر او آئی سی کی غیر سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔

گزشتہ دنوں پاکستان اور مقبوضہ و آزاد کشمیر کے مسلمانوں کی اُس وقت شدید دل آزاری ہوئی جب او آئی سی کے ایک اہم ممبر ملک نے نریندر مودی جس کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہیں، کو مدعو کر کے اپنے ملک کے اعلیٰ ترین سول ایوارڈ سے نوازا اور کہا کہ ’’آپ اِس ایوارڈ کے حقیقی حقدار ہیں‘‘۔ مذکورہ خلیجی ملک کی پیروی کرتے ہوئے ایک اور خلیجی ملک نے بھی مودی کو اپنے ملک کے اعلیٰ ترین ایوارڈ سے نوازا۔ اس موقع پر مودی نے مقبوضہ کشمیر کیلئے اُن کے اقدام کی حمایت کرنے پر دونوں خلیجی ممالک کی قیادت کا شکریہ ادا کیا۔ خلیجی ممالک کا یہ اقدام ظاہر کرتا ہے کہ مسئلہ کشمیر پر اِن ممالک کی ہمدردیاں کس کے ساتھ ہیں۔

گزشتہ چند سالوں میں بھارت پر اسرائیل کا اثر و رسوخ بڑھتا جارہا ہے اور مودی، نیتن یاہو کے درمیان تعلقات میں بہت ہم آہنگی و قربت دیکھنے میں آئی ہے۔ بھارت، اسرائیل کا سب سے بڑا دفاعی خریدار ہے جس نے حال ہی میں اسرائیل سے 530ملین پائونڈ کے ایئر ڈیفنس، ریڈار سسٹم اور ایئر ٹو گرائونڈ میزائل حاصل کئے ہیں۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ نریندر مودی کو فلسطین کی طرح مقبوضہ کشمیر ہڑپ کرنے کے منصوبے میں اسرائیلی وزیراعظم کی سرپرستی حاصل ہے اور آج مودی، مقبوضہ کشمیر میں بھی وہی حکمت عملی اختیار کررہا ہے جو اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ اپنا رکھی ہے جبکہ بھارتی فوج کشمیریوں کے ساتھ وہی حکمت عملی اپنا رہی ہے جو اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ اپنا رکھی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر اور مقبوضہ فلسطین کی صورتحال میں مماثلت نظر آتی ہے مگر ایسی صورتحال میں امت مسلمہ تفریق کا شکار نظر آتی ہے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلم دشمن طاقتیں مسلمانوں کو آپس میں لڑوا کر انہیں کمزور اور غیر مستحکم کررہی ہیں لیکن افسوس کہ اسلامی ممالک کے حکمراں دشمن ملک کی سازشوں کو سمجھنے کے بجائے بھارت کے اسلام دشمن اقدامات کو سراہ رہے ہیں۔ کاش کہ امت مسلمہ نبی کریمﷺ کے اس فرمان پر عمل کرنے والی بن جائے کہ ’’مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں، اگر جسم کے کسی حصے کو تکلیف پہنچتی ہے تو اس کا احساس پورے جسم کو ہوتا ہے‘‘۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

مزید خبریں :