13 ستمبر ، 2019
مانا کہ خان ناگریز ہے، وہ سب سے مقبول ترین ہے، یہ بھی تسلیم کہ اس کا ووٹ بینک چاروں صوبوں میں ہے، یہ بھی سچ کہ پنجاب میں اس کی اکثریت ہے، پختونخوا میں دو تہائی ارکان اس کی پارٹی کے ہیں، یہ بھی قبول کہ شہری سندھ میں اسے اچھی نشستیں ملی ہیں، اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بلوچستان میں اس کی اتحادی جماعت ’’باپ‘‘ بڑی سیاسی طاقت کے طور پر اقتدار میں ہے۔ اس حقیقت کو جھٹلانا بھی مشکل کہ فوری طور پر خان کا کوئی متبادل بھی نہیں۔
ن لیگ زخمی اور اسیر ہے، پیپلز پارٹی پنجاب میں کمزور ہے اور لیڈر شپ پر مقدمات ہیں، دونوں جماعتیں ایک ایک صوبے تک محدود ہیں، ایسے میں خان سب سے اونچا نظر آتا ہے۔
کسی کو اچھا لگے یا برا مگر مجموعی تاثر یہ ہے کہ خان خود ایماندار ہے اور وہ کچھ اچھا کرنا چاہتا ہے۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی اور ن لیگ دونوں حکومت میں رہ چکی ہیں، اس وقت ان کی خوبیوں کے بجائے خرابیاں زیادہ سامنے ہیں، یوں فی الحال یہ دونوں جماعتیں تحریک انصاف کی چمک کے سامنے ماند ہیں۔
ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے کرپشن الزامات کا قانونی دفاع تو کیا ہے مگر عوامی دفاع مؤثر طور پر نہیں کر سکیں جس طرح خان نے سادہ اور عوامی زبان میں ان دونوں جماعتوں پر کرپشن کے الزامات عائد کئے، اسی طرح کی زبان یا یوں کہیے کہ مؤثر انداز میں عوامی جواب نہیں دیا جا سکا، اسی وجہ سے خان کو اخلاقی برتری حاصل ہوئی، اپوزیشن کے لئے ابھی بھی یہ راستہ کھلا ہے کہ وہ قانون کے احاطے سے نکل کر عوامی جلسہ گاہوں میں آسان اور عام فہم الفاظ میں اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کو رد کرے اور پھر ایسی وجوہات یا ثبوت پیش کرے جن سے یہ الزامات کم از کم عوام کی نظر میں ختم ہو جائیں۔
جب تک یہ نہیں ہوتا خان کی اونچی آواز کو نیچا کرنا مشکل ہوگا۔ اپنے خلاف الزامات پر عوامی فورمز میں اپوزیشن کی خاموشی نے پہلے بھی اسے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اور آئندہ بھی یہ نقصان اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک ایک ایک الزام کا عوامی اطمینان کے مطابق جواب نہیں دیا جائے گا۔
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ کئی دہائیوں کے بعد ریاستی ادارے اور سیاسی چیف ایگزیکٹو ایک ہی صفحے پر ہیں۔ یہ بھی طے ہے کہ معاشی اور خارجی بحران کے اس نازک ترین دور میں مقبول لیڈر خان ہی واحد آپشن تھا، ریاستی ادارے شریف اور زردار دونوں کے ارادوں اور پالیسیوں پر کھلے عام تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں لیکن خان پر انہیں اندھا اعتماد ہے۔ ملک و قوم کے لئے یہ ایک اچھی علامت ہے کہ حکومت اور ریاست مل کر مسائل کا حل نکالیں اور ملک کی کشتی کا بیڑا پار لگائیں۔
یہ تاثر بھی بڑی حد تک درست ہے کہ اس ملک کی یوتھ خان کے ساتھ ہے، وہ پرانی سیاست میں دلچسپی نہیں رکھتی تھی، خان کی وجہ سے اسے سیاست میں دلچسپی پیدا ہوئی اور وہ اب بھی خان سے امیدیں لگائے بیٹھی ہے۔ اسی طرح خواتین کی کثیر تعداد بھی خان کی فین ہے۔ اوورسیز پاکستانی توخان کے دیوانے ہیں اور وہ نگاہیں لگائے بیٹھے ہیں کہ خان پاکستان کو کب بدلے گا۔ پسے ہوئے طبقات کی بھی خان سے خاصی ہمدردی پیدا ہو چکی ہے۔ ان سب طبقات کی وابستگی دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ خان فی الحال ناگزیر ہے۔
خان کی ناگزیریت اور اہمیت اپنی جگہ مگر یہ بات بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ دنیا بھر کے قبرستان ناگزیر لوگوں سے بھرے پڑے ہیں۔ خان بہت بڑا ہے مگر قوم سے تو بڑا نہیں، اُس کا قد اونچا سہی مگر وہ ملک سے تو اونچا نہیں۔ ہر مہذب قوم نے ناگزیر لیڈر کے متبادل بھی سوچ کر رکھے ہوتے ہیں مگر ہمارے ہاں بدقسمتی سے اس وقت کوئی متبادل نہیں، خدانخواستہ خان کو کچھ ہوا یا اقتدار سے رخصت ہونا پڑا تو ہمارے پاس کیا متبادل ہے؟ اس بارے میں سوچنے اور تیاری کرنے کی فوری ضرورت ہے۔
عظیم وژنری لیڈرز اپنے متبادل اور جانشین خود تیار کرتے ہیں مگر ایسا ظرف یہاں کہاں؟ یہاں تو حسد و عناد میں ہر ایک کو باندھ کر رکھا جاتا ہے کہ کہیں کوئی آگے نہ نکل جائے۔ کسی زمانے میں اسد عمر مڈل کلاس اور یوتھ میں بڑے مقبول تھے اور انہیں متبادل کے طور پر دیکھا اور دکھایا جاتا تھا مگر وہ مکھن سے بال کی طرح نکال دئیے گئے۔ ترین لودھروی اور مودی ملتانی دونوں کا تجربہ اور دانش اس قابل تھا کہ وہ متبادل یا جانشین بنتے مگر پارٹی کو خونِ جگر دینے والے ترین لودھروی کو عدالتی فیصلے نے نااہل قرار دیا تو اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا گیا، نہ جانا گیا کہ اس فیصلے کے پیچھے کون تھا اور کیوں کروایا گیا؟
دوسری طرف مودی ملتانی اپنے پتے سینے سے لگائے رہتے ہیں، بازی بڑی احتیاط سے کھیلتے ہیں مگر یہ بھی بنی نالہ کے سینے میں کھٹکتے رہے اور بالآخر ان کے خلاف بیان دے کر اور ان کے درجے گھٹا کر پچھلی صف میں بٹھا دیا گیا، وہ اب دور بیٹھے پھر سے بازی لگا رہے ہیں۔ فواد جہلمی ہو یا خسرو کبھی رولر کوسٹر کی طرح انہیں اوپر لایا جاتا ہے اور کبھی نیچے پھینک دیا جاتا ہے، یوں وہ کچھ بڑا سوچ ہی نہیں سکتے۔
آج آکر زلف پجاری کا مرتبہ بلند ہوا ہے، وہ غیر منتخب مشیر ہونے کے باوجود شیخ رشید جیسے وزیروں پر بھاری ہے۔ لندن کی ایک تقریب میں اسے شیخ رشید کی موجودگی کے باوجود کہیں زیادہ پروٹوکول دیا گیا، ظاہر ہے یہ کسی کو بھی پسند نہیں آیا ہوگا سوائے زلف پجاری کے۔ پانچ دریاؤں کی سرزمین کا تو معاملہ ہی عجیب اور پُراسرار ہے، علیم لاہوری نے بزکش کے مقابلے میں سر اٹھایا تو پہلے اسے 90شاہراہ قائداعظم سے نکالا پھر ایسی روحانی بددعا دی کہ نیب نے تحویل میں لے لیا اب وہ اس مشکل سے نکل بھی آیا ہے مگر اس کی عزت بحال کرنے کی کسی کو فکر نہیں اور پھر وہ میانوالی کا اجلا شخص، سبطین میانوالیہ کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ اس بیچارے کا کسی نے بزکش کے متبادل کے طور پر نام دے دیا، بس اتنا ہی ہوا تھا کہ اسے بھی روحانی بددعا لگ گئی اور وہ بھی نیب کی تحویل میں چلا گیا۔
آخر میں عرض ہے کہ باوجود اس کے ناگزیر کا کوئی متبادل تیار نہیں کیا جارہا مگر فطرت کا اٹل اصول ہے کہ فرعون ہر پیدا ہونے والے بچے کو ہلاک بھی کردے تو موسٰی پیدا ہو کر رہتا ہے۔ اب بھی ایسا ہی ہوگا مگر ریاست اور سیاست دونوں کا فرض ہے کہ وہ ابھی سے ناگزیر کا متبادل تیار کریں، سیاست کے لئے نہیں بلکہ ریاست کے لئے۔