24 ستمبر ، 2019
قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ ایوب خان اپنے دوسرے اصلاحی منصوبوں کی طرح صحافت کے شعبے کو بھی بزعم خود مثبت خطوط پر منظم کرنے اور سنوارنے کے خواہش مند تھے۔
ان کی اسی خواہش کی تکمیل کیلئے جب سیکرٹری اطلاعات بریگیڈیئر ایف آر خان نے پٹاری سے پریس اینڈ پبلی کیشن آرڈیننس کا مسودہ برآمد کر کے کابینہ میں منظوری کیلئے پیش کیا تو سب نے بڑی خوشدلی سے اس پر آمنا و صدقنا کہا۔
اس وقت کابینہ میں بیشتر وزیر ایسے تھے جنہوں نے بڑے بڑے سول اور ملٹری عہدوں کی پناہ میں زندگی گزاری تھی اور ملک میں ایک ایسا پریس جو ان کی ذات اور وزارت کو ہدفِ تنقید نہ بنا سکےان کیلئے انتہائی مرغوب خاطر تھا۔ پاکستان کی صحافت میں اس کو کالے قانون کے طور پہ یاد کیا جاتا ہے اور جب مارشل لا اٹھا اور نئے آئین کے تحت بنیادی جمہوریت کے نظام کا دور شروع ہوا تو اخبارات نے وہ سر پوش اٹھا کر دے مارا جو مارشل لاکے دوران انہوں نے مجبوراً اپنے اوپر اوڑھ رکھا تھا۔
حکومتی ارکان جو پہلے حفاظتی حصار میں بیٹھے تھے اب کھلم کھلا عوام اور صحافت کی بے رحم سرچ لائٹ کے نیچے آگئے، اس صورتحال سے صدر ایوب پریشان تھے اور کابینہ میں ان کے بہت سے رفیق بھی بوکھلائے ہوئے تھے۔ اس دوران وزارت اطلاعات کا چارج سنبھالنے کے لئے صدر ایوب کی نگاہ انتخاب ان پہ پڑی۔
قدرت اللہ شہاب آگے لکھتے ہیں کہ ایک دن حکومت اور کابینہ ارکان کے خلاف حکومت کے رویے کا جائزہ لینے کیلئے صدر ایوب نے گورنر ہائوس مری میں نواب آف کالا باغ اور چند مرکزی وزرا کے ساتھ میٹنگ رکھی تھی،حکومت کے متعلق اخبارات کے رویے پہ گفتگو شروع ہوئی تو نواب آف کالا باغ نے کہا جناب میں نے تو صبح کے وقت اخبارات پڑھنا ہی ترک کر دیا ہے.
اخبارات ہمارے اوپر اتنی گندگی اچھالتے ہیں کہ صبح صبح انہیں پڑھ کر بلڈ پریشر بڑھتا ہے اور دن بھر کام ٹھیک سے نہیں ہوتا، قومی پریس پہ کنٹرول مضبوط کرنے کیلئے ہر وزیر با تدبیر اپنی بساط کے مطابق طرح طرح کے نسخے تجویز کررہا تھا، دو روزناموں کو سانپ کے مثل قرار دیتے ہوئے ان کے زہریلے دانت نکالنے کیلئے بھانت بھانت کی تدبیریں اور تجویزیں پیش کی جا رہی تھیں، کسی نے ان کو بھی سرکاری تحویل میں لینے کا مشورہ دیا، صدر ایوب نے بگڑ کر کہا کہ جو پہلے لیے وہ چل نہیں رہے تو اب کون سا تیر مار لیں گے.
پھر یہ طے پایا کہ ان دونوں اخبارات کو شائع کرنے والی کمپنیوں میں جو سرمایہ لگا ہوا ہے اس کے حصہ داروں کا پتا لگایا جائے اور حکومت کے منتخب افراد اور ادارے ان کے زیادہ سے زیادہ حصص خرید کر ان کی شہ رگ اپنے ہاتھ میں کر لیں، کچھ عرصہ مختلف تجاویز پہ کام ہوتا رہا اور بالآخر مغربی پاکستان کے گورنر نے پریس اینڈ پبلی کیشن (ویسٹ پاکستان ) ترمیمی، آرڈیننس 1963 جاری کر دیا،کچھ لوگوں کو خوش فہمی تھی کہ ایوب کے دور کے بعد یہ کالا قانون بھی اپنی موت آپ مر جائے گا لیکن ہر دور میں یہ امید نقش بر آب ثابت ہوئی۔
حکومت ایوب خان کی ہو یا کسی اور کی، ہر زمانے کے حکمران اسی قانون کی بیساکھیوں کا سہارا لے کر ارباب عقل و دانش کو برباد اور روشن خیالی اور فہم و فراست کے میناروں کو تخت و تاراج کرتے رہے ہیں۔ قدرت اللہ شہاب کا لکھا حرف بہ حرف درست ثابت ہوا جنرل ضیابرسراقتدار آئے یا جنرل مشرف،بے نظیر بھٹو ہوں یا نواز شریف یا عمران خان، جو خود اعتراف کریں کہ ان کی وزارت عظمیٰ میڈیا کی آزادی کی مرہون منت ہے، میڈیا کو لگام ڈالنے کیلئے نت نئے ہتھکنڈے اختیار کرنے کی سعی کی جاتی رہی۔
صدر ایوب کی طرح وزیراعظم عمران خان کی کابینہ کے ارکان کو بھی میڈیا کی تنقید ہضم نہیں ہو رہی۔انہوں نے کابینہ کے آخری اجلاس میں فرداً فرداً میڈیا کو ایسے مطعون کیا کہ وزیراعظم کے کانوں سے بھی دھواں نکلنے لگا۔
اطلاعات کے مطابق بعض وزراء نے تو حکومت کی کارکردگی کے خراب تاثر کی وجہ ہی اس بے لگام میڈیا کو قرار دیا جبکہ وزیر اعظم کی ذاتی زندگی کے بارے میں میڈیا کی ہرزہ سرائی کی مثالیں دے کر انہیں اور طیش دلانے کی کوشش کی۔
وزیراعظم نے جب دریافت کیا کہ اس ناہنجار میڈیا کو کیسے راہ راست پہ لایا جائے تو جھٹ سے میڈیا کیلئے اسپیشل ٹربیونلز (عدالتیں) قائم کرنے کی تجویز آئی، تاہم اپوزیشن جماعتوں، میڈیا کے اداروں، صحافتی و سماجی تنظیموں، انسانی حقوق کے ملکی و عالمی اداروں اور صحافیوں نے میڈیا کیلئے خصوصی عدالتوں کے قیام کے اس حکومتی فیصلے کو یکسر مسترد کر دیا، ایک ایسے وقت میں جب حکومتی پالیسیوں اور ایک سالہ کارکردگی کے سبب ملک میں انتشار کی کیفیت بپا ہے۔
بجائے اس کے کہ حکومت اپنے اقدامات اور پالیسیوں پر نظر ثانی کے ذریعے اپنی شبیہ کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرے اس نے آئینے کو توڑنے کی ٹھان لی ہے۔ حکومت کو ادراک ہونا چاہئے کہ اپنی بقا کی جنگ لڑتے میڈیا کیلئے خصوصی عدالتیں اونٹ کی کمر پہ آخری تنکا ثابت ہوں گی۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔