06 جون ، 2025
ویتنام نے اپنی دیرینہ دو بچوں کی پالیسی کو بالآخر ختم کر دیا۔
غیر ملکی خبر ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اس پالیسی کو ختم کرنے کا مقصد گرتی ہوئی شرح پیدائش کو واپس لانا اور عمر رسیدہ معاشرے کے دباؤ کو کم کرنا ہے۔
ویتنامی میڈیا کے مطابق رواں ہفتے تمام پابندیاں ہٹا دی گئی تھیں اور اب شادی شدہ جوڑے اپنی مرضی کے مطابق دو سے زیادہ بچے پیدا کر سکیں گے۔
ہنوئی ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق وزیر صحت ڈاؤ ہانگ لین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں کم ہوتی آبادی 'ویتنام کی پائیدار اقتصادی اور سماجی ترقی کے ساتھ ساتھ طویل مدت میں اس کی قومی سلامتی اور دفاع کے لیے خطرہ ہے'۔
خبر رساں ادارے کے مطابق 1999 سے لے کر 2022 کے درمیان، ویتنام میں شرح پیدائش تقریباً 2.1 بچے فی عورت تھی، آبادی کو کم کرنے سے بچانے کے لیے متبادل شرح کی ضرورت تھی لیکن یہ شرح کم ہونا شروع ہو گئی ہے۔
2024 میں ملک کی شرح پیدائش فی عورت 1.91 بچوں کی ریکارڈ کم ترین سطح پر پہنچ گئی تھی۔
اس کے علاوہ جاپان، جنوبی کوریا، تائیوان، سنگاپور اور ہانگ کانگ جیسے علاقائی ہمسایہ ممالک میں بھی شرح پیدائش میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن ان کی معیشت کی حالت ویتنام سے زیادہ ترقی یافتہ ہے۔
خیال رہے کہ یہ قوانین کمیونسٹ پارٹی کے اراکین پر زیادہ سختی سے لاگو ہوتے تھے جنہیں تیسرے بچے کی صورت میں ترقی یا بونس سے محروم کیا جا سکتا تھا۔
اس کے علاوہ جنس کے لحاظ سے بھی شرح پیدائش میں عدم توازن موجود ہے جو بیٹوں کو ترجیح دینے کی قدیم روایت کی وجہ سے ہے۔
ڈاکٹروں کو پیدائش سے پہلے بچے کی جنس بتانے کی اجازت نہیں ہے اور جنس کی بنیاد پر اسقاط حمل پر پابندی ہے مگر پھر بھی کچھ ڈاکٹر مبہم زبان استعمال کر کے جنس کا اشارہ دے دیتے ہیں۔