Time 24 ستمبر ، 2019
بلاگ

دنیا بہت ایڈیٹ ہے

وزیراعظم عمران خان امریکہ پہنچ چکے ہیں جہاں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس ہو رہا ہے۔

وزیراعظم کو جمعہ 27 ستمبر کو اس اجلاس سے خطاب کرنا ہے اور اس سے پہلے ان کی دو مرتبہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات ہوگی۔

کشمیر سے متعلق سفارتی محاذ پر بھی حالات نہایت غیر موافق دکھائی دے رہے ہیں اور اقوام متحدہ کے اجلاس سے کسی جادوئی پیشرفت کی توقع نہیں مگر نجانے کیوں یوں لگتا ہے جیسے عمران خان اپنی تقریر کا جادو جگانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

اقوام متحدہ کے اس اجلاس میں سب سے اہم ترین کارروائی یونائیٹڈ نیشنز ہیومن رائٹس کونسل کی نشست ہے، جہاں مسئلہ کشمیر کو زیر بحث لایا جا سکتا ہے۔

یو این ایچ سی آر میں کسی بھی معاملے کو زیر بحث لانے کے دو طریقے ہیں، ایک تو یہ کہ کوئی بھی ملک قرارداد لائے اور دوسرے طریقے کو توجہ دلائو نوٹس کہا جا سکتا ہے، جس میں کسی بھی مسئلے کو محض زیر بحث لانے کی استدعا کی جا سکتی ہے۔

اگر آپ عالمی ادارے کی حقوق انسانی کونسل میں کوئی قرارداد لانے کے متمنی ہیں تو آپ کو یو این ایچ سی آر کے 47رُکنی ایوان کے کم از کم 15ارکان کی تائید و حمایت درکار ہوتی ہے تاہم کسی معاملے کو زیر بحث لانے کے لئے رکن ممالک کی پیشگی حمایت درکار نہیں ہوتی۔ البتہ زیر بحث لانے میں بھی ایک اہم مرحلہ تب آتا ہے جب متعلقہ فریق کسی بھی ایشو کو زیر بحث لانے کے لئے ووٹنگ کا مطالبہ کر دے۔

پاکستان نے آخری مرتبہ 1994میں تب بھارت کیخلاف یو این ایچ سی آر میں قرارداد لانے کی کوشش کی جب بھارتی فوج نے درگاہ حضرت بل کا محاصرہ کر رکھا تھا۔ پاکستان اور بھارت میں سے کسی کو بھی اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کونسل میں کامیابی کا یقین نہیں تھا اور مقابلہ بہت سخت تھا اس لئے درمیانی راستہ اختیار کیا گیا اور مذاکرات کے نتیجے میں پاکستان نے یہ قرارداد واپس لے لی۔

اب 25برس بعد پاکستان کے پاس موقع تھا کہ بھارت کیخلاف یو این ایچ سی آر میں قرارداد لائی جاتی مگر یہ موقع گنوا دیا گیا ہے۔ 19 ستمبر تک قراررداد جمع کروا کے ایجنڈے پر لائی جا سکتی تھی مگر پاکستانی حکام یہ مرحلہ طے نہیں کر پائے جس کی وجہ شاید یہ ہو سکتی ہے کہ قرارداد کے لئے 15رُکن ممالک کی حمایت حاصل نہیں کی جا سکی۔

او آئی سی کے 57 رُکن ممالک میں سے 15ممالک یو این ایچ سی آر کا حصہ ہیں، اگر عمران خان اس قرارداد کی حمایت پر اصرار کرتے تو سفارتی سطح پر بڑی کامیابی حاصل کی جا سکتی تھی۔ اب تو محض یہی راستہ بچ گیا ہے کہ توجہ دلائو نوٹس کے تحت کشمیر کی صورتحال کو زیر بحث لانے کو کہا جائے اور پھر ایک ایسا بے ضرر سا مذمتی بیان جاری ہو جائے جس سے دونوں ملکوں کی سفارتی پالیسی پر کوئی فرق نہ پڑے۔

ذوالفقار علی بھٹو کی شعلہ بیانی کا ایک زمانہ معترف ہے مگر وہ بھی اقوام متحدہ کے برفانی ایوان میں اپنی شعلہ بیانی سے آگ نہ لگا سکے۔

15دسمبر 1971کو ذوالفقار علی بھٹو نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونس کے اجلاس میں جذباتی تقریر کرتے ہوئے کہا، ہمیں ہزار سال بھی لڑنا پڑا تو لڑیں گے اگر تم لے سکتے ہو تو پانچ یا دس سال کے لئے مشرقی پاکستان لے لو لیکن ہم یہ واپس لیکر رہیں گے کیونکہ یہ تاریخ کا سبق ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو نے تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا آج میں واک آئوٹ نہیں کر رہا لیکن میں آپ کی سیکورٹی کونسل سے جا رہا ہوں، میں یہاں ضرورت سے زیادہ ایک پل رُکنے کو بھی اپنی ذات اور اپنے ملک کے لئے تضحیک آمیز تصور کرتا ہوں، مگر میں بائیکاٹ نہیں کر رہا، کر دو مسلط، کوئی بھی فیصلہ مسلط کر دو، جارحیت کو قانونی حیثیت دے دو، قبضے کو قانونی حیثیت دے دو، ہر وہ چیز قانونی قرار دے دو جو 15دسمبر 1971تک غیرقانونی تھی مگر میں اس عمل میں شریک نہیں ہوں گا، ہم لڑیں گے، ہم واپس جاکر لڑیں گے، آپ اپنی سیکورٹی کونسل اپنے پاس رکھیں، میں جا رہا ہوں‘‘۔

یہ کہتے ہوئے بھٹو نے اپنے ہاتھ میں تھامے ہوئے کاغذ کے ٹکڑے کو پھاڑ کر پھینک دیا اور وہاں سے چلے آئے۔ ہزار سال لڑنے کی بات محض الفاظ کی جادوگری تھی کیونکہ جب بھٹو یہ تقریر کر رہے تھے تو پاکستان میں 16دسمبر کا سورج طلوع ہو چکا تھا۔

بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان بھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بہت متاثر کن خطاب کرنے جا رہے ہیں جس کے بعد صورتحال یکسر تبدیل ہو جائے گی اور مسئلہ کشمیر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حل ہو جائے گا۔

جب مظفرآباد میں حریت رہنمائوں کی وزیراعظم عمران خان کی ملاقات ہوئی اور اس میں عالمی برادری کی بے حسی کا معاملہ زیر بحث آیا تو عمران خان نے کہا کہ آپ اقوام متحدہ میں میری تقریر کا انتظار کریں۔

جیو نیوز سے منسلک صحافی شبیر ڈار کا دعویٰ ہے کہ یہ بات حریت کانفرنس کے کنوینر عبداللہ گیلانی نے انہیں بتائی جو سید علی گیلانی کی نمائندگی کرتے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان کے مزاج کے پیش نظر یہ بات بعید از قیاس تو نہیں مگر ممکن ہے انہوں نے یہ بات نہ کہی ہو، البتہ اگر ایسا ہو جائے تو کیا ہی بات ہے، دنیا میں آخر معجزے بھی تو ہوتے ہیں۔

ورلڈکپ بھی تو ہم نے انہی حالات میں جیتا تھا۔ کیا کوئی کہہ سکتا تھا کہ یہ ٹیم ورلڈ کپ جیت جائے گی؟ میرے کپتان نے یہ انہونی کر دکھائی لیکن نجانے کیوں مجھے لگتا ہے یہ اب نہیں ہوگا۔ دنیا بہت ایڈیٹ ہے، اسے یوٹرن کی افادیت و اہمیت کا اِدراک نہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔